جوائنٹ فیملی سسٹم زوال پذیر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
شادی دو افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے جس میں میاں اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے کے شریک حیات بنتے ہیں بلکہ والدین کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں بھی قبول کرتے ہیں۔ بچوں کی پرورش اور ان کی بہتر تربیت ایک مضبوط اور پرامن خاندان کی بنیاد بنتی ہے۔ یہ ایک فطری نظام ہے جس کے ذریعے اخلاقیات، روایات اور دین کی روشنی میں اگلی نسل کو سنوارا جاتا ہے۔ہمارے خاندانی نظام کی ساخت میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں علاقائی، تہذیبی، سماجی اور تاریخی روایات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں شادی سے پہلے نجی زندگی کے حوالے سے تربیت اور رہنمائی کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ ہر فرد اپنے ذاتی مشاہدے اور سماجی تجربات کی بنیاد پر زندگی میں داخل ہوتا ہے جب عملی زندگی میں زندگی کے چیلنجز پیش آتے ہیں تو حواس باختہ ہو جاتا ہے۔یہ چیلنجز اس وقت شروع ہوتے ہیں جب شادی شدہ جوڑے کو مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ شادی کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہا جائے یا سنگل فیملی سسٹم میں، یہ دونوں فیملی سسٹم اپنے اندر خوبیاں اور خامیاں رکھتے ہیں، سنگل فیملی سسٹم کے مقابلے میں جوائنٹ فیملی سسٹم زیادہ تر ہمارے سماجی نظام کا حصہ رہا ہے لیکن دور جدید میں اب خاندانی نظام کو بہت زیادہ چیلنجزکا سامنا ہے جس کے باعث یہ نظام زندگی روز بہ روز زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے اور سنگل فیملی سسٹم کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
آئیے! اس کا جائزہ لیں۔ جدید طرز زندگی میں میاں بیوی اور بچوں کے تصور کو ہی نمایاں حیثیت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں عورت کے ذہن میں یہ تصور رائج ہو جاتا ہے کہ اس کا شوہر اور بچے ہی سب کچھ ہیں، اس تصور زندگی کے تحت وہ گھرکے دیگر افراد کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتی بلکہ سماجی دباؤ کے تحت زندگی گزارتی ہے جس سے جوائنٹ فیملی سسٹم کمزور ہوتا ہے جو بعد میں سنگل فیملی سسٹم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی گھرانہ عمومی طور پر آئیڈیل گھرانہ نہیں ہوتا ان کے کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہوتے ہیں۔ خاندانی نظام میں اصل الجھاؤ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک ہی گھر میں رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے گھر چھوٹے پڑجاتے ہیں اور ان کی ضروریات اور ترجیحات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بزرگوں کا غیر ضروری دباؤ بھی رشتے کی دوری کا سبب بنتا ہے۔
رشتہ کوئی بھی ہو سب کی ایک حدود ہوتی ہے۔ سب کا مقام اپنی جگہ اہم ہے ان کے مابین توازن ضروری ہے مشترکہ خاندان میں ان رشتوں کے مابین غیر ضروری مداخلت کے نتیجے میں ان رشتوں کے مابین کشمکش شروع ہو جاتی ہے جس سے گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے نتیجے میں رشتے کمزور ہو جاتے ہیں جو خاندانی نظام کے خاتمے کا سبب بنتے ہیں۔ہمارے خاندانی نظام میں ساس اور بہو کا جھگڑا ایک روایتی مسئلہ رہا ہے۔ یہ دونوں بیٹے اور شوہر پر اپنی ملکیت کی دعوے دار ہوتی ہیں، اس جھگڑے میں شوہر کا توازن نہ رکھ پانا جس کے نتیجے میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔
ان رشتوں کے مابین توازن رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے اس کوشش میں آدمی سرکس میں رسی پر چلنے والا مداری بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے بڑے بڑے سمجھدار آدمی بھی خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ میری رائے میں یہ مسئلہ غیر فطری نفسیات کے تحت پیدا ہوتا ہے۔ ساس ماں نہیں ہو سکتی، بہو بیٹی نہیں ہو سکتی یہ ایک انسانی فطرت ہے اس لیے اس مسئلے کو ہمیں سماجی تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو قبول کر لینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں یہ مسئلہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے زوال کا سبب بنتا ہے۔مرد کا زیادہ تر وقت گھر کے باہر گزرتا ہے خواتین زیادہ تر وقت ایک ہی گھر میں گزارتی ہیں۔
غیر حقیقت پسندانہ توقعات کے باعث بات بے بات گھر کے اندر رہنے والے دیگر افراد کے ساتھ اختلافات ہونے لگتے ہیں جن کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے لیکن جذباتی ناپختگی کے باعث خاموشی یا غصے کا عنصر غالب آ جاتا ہے جس سے دوری بڑھ جاتی ہے، اس سے تنازعات جنم لیتے ہیں نتیجے میں رشتے کمزور ہو جاتے ہیں جو فیملی سسٹم کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔خاندانی نظام میں بڑے بھائی کو عزت و احترام کا جو درجہ ملتا ہے اس کے تحت اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ بہ حیثیت سربراہ اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرے وہ اپنی قربانی اور جذبہ ایثار کے سبب سماج میں عزت و توقیر کا مستحق قرار پاتا ہے لیکن اس عمل کے نتیجے میں اس کی زندگی بے رونق ہو جاتی ہے۔
جو لوگ ایسے عمل کو انجام دینے سے قاصر ہوتے ہیں وہ جوائنٹ فیملی سے خود کو الگ کر لیتے ہیں، ان کے اس عمل سے جوائنٹ فیملی سسٹم زوال پذیری کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسی صورت میں بعض فیملیوں کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی لڑائی بعض اوقات بڑوں کی لڑائی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں۔بعض خواتین اپنی نفرتوں کو اپنے بچوں میں منتقل کر دیتی ہیں۔ اس سے ان خواتین کی انا کو تو تسکین حاصل ہو جاتی ہے لیکن یہ نفرت بچوں کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے جو زندگی بھر بعض اوقات ان کے ساتھ رہتی ہے جس کے نتیجے میں فیملی سسٹم کو نقصان ہوتا ہے۔
یہ عمل فیملی سسٹم کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ ہر آدمی کی کمائی برابر نہیں ہوتی، جوائنٹ فیملی سسٹم کی ایک خامی یہ ہے کہ کم آمدنی والے زیادہ آمدنی والے پر انحصار کرتے ہیں اور معاشی ترقی کے حصول کی تگ ودو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کے نتیجے میں کاہل اور سست ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ہر انسان اپنی کمائی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے جب وہ ایسی صورتحال دیکھتا ہے تو اپنی کمائی کو محفوظ رکھنے کے لیے چور دروازے استعمال کرتا ہے، یہ طرز عمل گھر کے افراد میں دوری پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔شعوری اور لاشعوری طور پر ہمارے یہاں زیادہ کمانے والے کو کم کمانے والے کے مقابلے میں زیادہ عزت ملتی ہے، گھر میں عموماً اس کی ہی حاکمیت ہوتی ہے جو معاشی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اس طرز عمل سے گھر کے دیگر افراد احساس کمتری اور حسد کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ حسد کا یہ مادہ رشتوں کو قبرستان میں تبدیل کر دیتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں فیملی سسٹم سنگل ہو یا مشترکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں، دونوں یکساں طور پر جائز ہیں۔ سنگل فیملی سسٹم بھی کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے، اس کے بھی کئی منفی پہلو ہیں، اس نظام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نظام میں گھر کے بزرگ نہ صرف صدمے سے دوچار ہوجاتے ہیں بلکہ تنہائی کا شکار ہو کر بے سہارا اور غیر محفوظ ہو جاتے ہیں جس کے نظارے ہم اپنے ارد گرد شب و روز دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے خاندانی نظام میں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
’مجھے کم کیوں دیے؟‘ گول گپے والے سے جھگڑے پر خاتون نے سڑک پر دھرنا دے دیا
بھارت میں ایک خاتون نے اس وقت سڑک بلاک کر دی جب گلی کے گول گپے فروش نے انہیں وعدے کے مطابق گول گپے نہیں دیے۔
عام طور پر شہروں میں ٹریفک کی رکاوٹیں جلوس، سیاسی ریلیاں یا مون سون کی بارش کی وجہ سے ہوتی ہیں، لیکن گجرات میں اس ہفتے رکاوٹ کی وجہ کچھ اور ہی تھی ”گول گپے“
خاتون کے مطابق، گول گپے بیچنے والے نے انہیں 20 روپے کے بدلے صرف چار گول گپے دیے، جب کہ وہ چھ مانگ رہی تھیں۔ غصے میں آ کر خاتون نے سڑک کے بیچ میں بیٹھ کر احتجاج شروع کر دیا اور اس وقت تک ہلنے سے انکار کر دیا جب تک اسے اپنے مطالبے کے مطابق دو اضافی گول گپے نہ مل جائیں۔
سڑک پر موجود لوگوں اور موٹرسائیکل سواروں نے اس غیر معمولی احتجاج کو ویڈیو میں قید کر لیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تاکہ اس مناظر کو اپنے فونز میں ریکارڈ کریں۔
جب پولیس پہنچی تو صورتحال مزید ڈرامائی ہو گئی۔ خاتون نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ انصاف کے طور پر اسے چھ گول گپے ملیں، کم نہیں۔ چند گھنٹوں تک ٹریفک گول گپوں کے تنازع کی نذر رہی۔
آخر کار، پولیس نے خاتون کو سڑک سے ہٹایا اور ٹریفک معمول پر لائی۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا خاتون کو ان کے گمشدہ دو گول گپے ملے یا نہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Daily Bharat News (@daily.bharat.news)
واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔ صارفین نے اس پر مزاح اور حیرت آمیز تبصرے کیے، کچھ نے کہا کہ یہ چھوٹے گول گپے کے لیے غیر معمولی احتجاج ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے خاتون کی جرات کو سراہا کہ وہ اپنے حق کے لیے سڑک پر بیٹھ گئیں۔
یاد رہے کہ گول گپے محض ایک سٹریٹ فوڈ نہیں، بلکہ نوجوانوں اور شہریوں کے لیے پسندیدہ لذیذ تجربہ ہیں۔
Post Views: 2