پاک بھارت میچز کی تاریخ؛ انڈین ٹیم دباؤ کا شکار ، گرین شرٹس کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہا
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کے مقابلے ہمیشہ ہی شائقین کے لیے سب سے بڑی کشش رہے ہیں۔
ان بڑے اور ہائی وولٹیج میچز میں جہاں بھارتی میڈیا اکثر اپنے کھلاڑیوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے اور نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے، وہیں ریکارڈز یہ حقیقت بھی عیاں کردیتے ہیں کہ اصل دباؤ ہمیشہ بھارتی ٹیم پر ہی رہا ہے اور فیصلہ کن لمحات میں پاکستان کا پلڑا ہی ہمیشہ بھاری نظر آیا ہے۔
ماضی کی مثالوں پر نظر ڈالیں تو 1986ء کا شارجہ فائنل آج بھی شائقین کے ذہنوں میں تازہ ہے، جب جاوید میانداد کے آخری گیند پر چھکے نے بھارت کی جیت کو شکست میں بدل دیا۔
یہ لمحہ صرف ایک میچ کی جیت نہیں تھا بلکہ بھارتی کرکٹ کے اعصاب پر ایسا دباؤ ڈال گیا جو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔
اسی طرح 2004ء میں بھارت کے دورہ پاکستان کے دوران راولپنڈی ٹیسٹ میں انضمام الحق اور یونس خان کی شاندار شراکت نے بھارت کو بے بس کر دیا تھا۔
2005ء کے کولکتہ ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کو اسی کے میدان میں شکست دے کر ایسا سبق سکھایا، جسے بھارتی شائقین آج بھی یاد رکھنے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی فائنل کا ذکر کیے بغیر بھی بھارتی شکستوں کی یہ داستان مکمل نہیں ہو سکتی، جب پاکستان نے بھارت کو 180 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی۔
اس فائنل میں نہ صرف فخر زمان کی شاندار سنچری بلکہ محمد عامر کی ابتدائی تباہ کن بولنگ نے بھارتی ٹیم کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ یہ جیت جہاں پاکستان کے لیے تاریخی تھی، وہیں بھارتی کرکٹ کے لیے سب سے بڑی ہزیمت بھی ثابت ہوئی۔
کرکٹ کی تاریخ کے ریکارڈز یہی ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے بولرز نے ہمیشہ بھارتی بلے بازوں پر دباؤ ڈالا ہے۔ خواہ شعیب اختر کی 1999ء ورلڈ کپ میں راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو لگاتار آؤٹ کرنے والی گیندیں ہوں یا وسیم و وقار کے تباہ کن اسپیلز، بھارت بار بار اس دباؤ کا شکار ہوا۔
اس طرح کے یادگار ریکارڈز سے پتا چلتا ہے کہ پاک بھارت میچ میں اصل اعصاب پر قابو ہمیشہ پاکستان کے پاس رہا ہے اور جب بھی دباؤ کے لمحے آتے ہیں، بھارتی ٹیم ہمیشہ گھبراہٹ کا شکار رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر کے شائقین اس ٹاکرے کو پاکستان کے مضبوط اعصاب اور بھارتی ٹیم دباؤ کے نیچے دبی ہونے کے تناظر ہی میں دیکھتے ہیں۔
بھارت کے خلاف پاکستان کی بڑی کامیابیاں:
شارجہ 1986ء: جاوید میانداد کا آخری گیند پر چھکا، ایشیا کپ فائنل جیتا۔ ورلڈ کپ انگلینڈ 1999ء : شعیب اختر کے تباہ کن اسپیل ے بھارت کے ٹاپ آرڈر کا دھڑن تختہ۔ کولکتہ ٹیسٹ 2005ء: پاکستان نے بھارت کو اسی کے میدان میں دھول چٹائی۔ چیمپئنز ٹرافی فائنل، اوول 2017ء: پاکستان کی 180 رنز سے تاریخی فتح، بھارت کے لیے کبھی نہ بھولنے والی سب سے بڑی ہزیمت۔ .ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے بھارت کو بھارتی ٹیم پاکستان کے بھارت کے کے لیے
پڑھیں:
ایشیاکپ:بھارت سے میچ سے قبل پاکستان کا بڑا مطالبہ
دبئی(سپورٹس ڈیسک) ایشیا کپ 2025 کے سپر فور مرحلے میں پاک بھارت ٹاکرے سے قبل پاکستان نے بھارت کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ کرکٹ کے میدان کو سیاست کا اکھاڑہ نہ بنایا جائے اور میچ ’’اسپرٹ آف کرکٹ‘‘ کے تحت کھیلا جائے۔
دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں اتوار کو ہونے والے اس میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ میچ کے آفیشلز کو پہلے ہی واضح ہدایات دی جائیں تاکہ کھیل کے دوران کسی قسم کی سیاسی حرکت نہ ہو۔
یہ خدشات اس وقت پیدا ہوئے جب ابتدائی مرحلے میں کھیلے گئے پاک بھارت میچ میں بھارتی ٹیم کے رویے نے کرکٹ کے کھیل کے آداب کو نقصان پہنچایا۔ اس میچ میں ٹاس کے دوران بھارتی کپتان نے پاکستانی قائد سے مصافحہ نہیں کیا اور میچ کے اختتام پر بھی بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ ہاتھ ملانے سے گریز کیا۔
بھارتی بلے باز سوریا کمار یادو نے میچ کے بعد اپنے انٹرویو میں سیاسی بیانات دیے جبکہ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کے متنازع فیصلوں نے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا۔ پی سی بی نے اس رویے پر آئی سی سی سے باضابطہ شکایت درج کرائی اور پائی کرافٹ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا، بصورت دیگر بائیکاٹ کی دھمکی بھی دی۔ بعد ازاں ریفری کی معافی اور آئی سی سی کی انکوائری کی یقین دہانی کے بعد پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔
پی سی بی ذرائع کے مطابق سپر فور کے لیے اب تک امپائرز اور ریفریز کی تقرری نہیں کی گئی، تاہم اینڈی پائی کرافٹ کے ساتھ رچی رچرڈسن کا نام بھی زیرِ غور ہے۔ ٹیم مینجمنٹ نے کھلاڑیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ میدان سے باہر کے معاملات سے دور رہتے ہوئے اپنی توجہ صرف کھیل پر مرکوز رکھیں اور بھارت کے خلاف جیت کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب پاکستانی کپتان سلمان علی آغا نے واضح کیا ہے کہ ان کی ٹیم بھارت سمیت ہر حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یو اے ای کے خلاف کامیابی کے بعد انہوں نے اعتراف کیا کہ مڈل آرڈر بیٹنگ میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ اگلے میچز میں 170 رنز کے ہدف تک باآسانی پہنچا جا سکے۔ سلمان نے شاہین آفریدی اور صائم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر ٹیم نے گزشتہ چار ماہ کی طرح کھیل پیش کیا تو کسی بھی حریف کے لیے پاکستان کو ہرانا مشکل ہوگا۔
Post Views: 7