کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250922-03-8
باباالف
۔14 ستمبر 2019 کی صبح سعودی عرب کے مرکز میں واقع دو بڑے آئل پراسیسنگ پلانٹس، ابیق (Abaiq) اور خریص (Khurais) جو دنیا کے سب سے بڑے تیل کے مراکز اور سعودی عرب آئل کمپنی (سعودی آرامکو) کے اہم ترین اسٹیبلائزیشن یونٹس میں شمار ہوتے ہیں یہاں پر حوثی باغیوں نے ڈرونز اور کروز میزائلوں سے بڑا فضائی حملہ کیا۔ اس حملے نے سعودی عرب کی خام تیل کی پیداوارکا نصف حدتک متاثر کیا اور تقریباً 57 لاکھ بیرل روزانہ تیل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی جو تیل کی عالمی پیداوار کا تقریباً 5 فی صد تک بنتا تھا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ تاریخ میں کبھی تیل کی عالمی منڈی کو اتنا بڑا حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔ حوثی باغیوں نے فوری طور پر حملہ کی ذمے داری قبول کرلی تھی مگر امریکا نے سعودی عرب کی حفاظت اور اس کے دفاع کے جو وعدے کیے تھے ان پر پورا اترنے سے انکار کردیا۔ سعودی حکام کو پہلی مرتبہ شدت سے احساس ہوا کہ اربوں ڈالرز کا خریدا گیا امریکی اسلحہ محض تماشے کے کھلونے ہیں اور امریکی سعودی دفاعی وعدے محض داستان سرائی اور وہ بھی کسی بڑی طاقت اور ملک کے خلاف نہیں حوثی باغیوں جیسی معمولی فورس کے خلاف۔ تب سے سعودی حفاظتی امریکی عہد وپیمان اور دفاعی چھتری ریاض میں اپنی اہمیت کھو بیٹھی اور ایک گمراہ کن تصور قرار پائی۔ اس کے باوجود سعودی ’’تبدیلی مسلک‘‘ کے لیے تیار نہیں ہوئے اور بدستور امریکی کیمپ میں ہی رہے۔
2023 اور 2024 تک آتے آتے سعودی عرب 1960 میں کیے گئے ’’امریکا اور جاپان اسٹائل ایگریمنٹ‘‘ یا امریکا اور جنوبی کوریا کی طرز کے دفاعی معاہدے کا امریکا سے خواہاں ہوا۔ یعنی ان ممالک کی طرح سعودی عرب پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی لیکن امریکا نے ایسی شرائط رکھیں جو سعودی خود مختاری کا کریا کرم ہی نہیں اسے بہت گہرا دفنانے کے مترادف تھیں۔ پہلی شرط اسرائیل کو تسلیم کرنا ہی نہیں خطے میں اور مسلم ورلڈ میں اسرائیل کو برتری دلانے میں امریکا کے ساتھ خودسپردگی کی حدتک تعاون تھی۔ یہ اسی سمت پیش رفت تھی کہ سعودی فضائیں اسرائیل کے لیے کھول دی گئیں اور عرب امارات اور بحرین نے سعودی عرب کی رضا مندی اور دبائو سے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ سعودی عرب میں چین اور دیگر مغربی طاقتوں کی عسکری یا سیکورٹی شراکت داری کم سے کم یا محدود ہوگی۔ سب کچھ امریکا کے علم میں ہوگا اور اس کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔ تیسری شرط پرامن جوہری ٹیکنالوجی کی سعودی عرب کو فراہمی تھی۔ امریکا نے اس مطالبے کو تسلیم کیا مگر شرط یہ رکھی کہ سعودی جوہری پروگرام مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں ہوگا اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے ان شرائط کو غلامی کی دستاویز سے تعبیر کیا جس سے سعودی عرب طاقتور نہیں بلکہ اپنی رہی سہی قدرو قیمت بھی کھو دے گا۔
غزہ میں امریکا اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تو ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنے امریکا اسرائیل جھکائو، معاہدہ ابراہیم کی طرف پیش رفت اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا جو ان کی سب سے بڑی اخلاقی اور علامتی قوت خادم حرمین شریفین کی حیثیت اور مسلم دنیا کی قیادت کی تردید تھی۔ جس سے عوامی سطح پر شدید ردعمل اور داخلی بے چینی جنم لے سکتی تھی۔ 2020 کے معاہدہ ابراہیم میں امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے اسرائیل سے تعلقات کے بعد اگر سعودی عرب اگلا ملک ہوتا تو یہ فلسطینی کاز کے لیے ایک فیصلہ کن دھچکا اور ترکی، ایران، قطر اور پاکستان جیسے ممالک کو اسلامی قیادت کا متبادل بننے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوتا۔ اس دوران ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو یہ باور کرانے میں مصروف رہی کہ سعودی عرب کے پاس امریکا کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں ہے اور اسے امریکی شرائط پر جاپان امریکا جیسے معاہدے کی طرف آنا ہی ہوگا۔ دوسری صورت میں اسے امریکی لے پالک اسرائیل کے شر اور طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔
یوں 2019 بلکہ اس سے بھی پہلے سعودی عرب امریکا کے متبادل کی تلاش میں تھا جس میں چین بھی شامل تھا اور پاکستان سے بھی اس کی بات چیت چل رہی تھی۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایسے کسی اتحاد پر یقین نہیں رکھتا۔ مئی 2025 میں جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی افواج نے چار دن کی مختصر جنگ میں بھارت کو جس طرح خاک چٹائی، اس کے بعد ایم بی ایس کو احساس ہوا کہ پاکستان محض بھکاری یا ایسی قوت نہیں ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے بلکہ ایک ایسی عظیم فوجی طاقت ہے جو غالب آنا جانتی بھی ہے اور غالب آکر دکھا بھی سکتی ہے جس کے بعد پاک سعودی عرب۔۔ اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو۔۔۔ کے مراحل شروع ہوگئے۔ قطر پر 9 ستمبرکے اسرائیلی حملے اور اس حملے میں امریکی آشیر باد نے ایم بی ایس کو امریکی دوستی اور بھروسے کے کھو کھلے پن، مکر اور عہد وپیمان کے دور تک پھیلتے شب ہجراں کے دھویں کا پختہ یقین دلادیا اور پھر وہ لمحہ آگیا جب ولی عہد محمد بن سلمان اھلاًو سھلاً کہتے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ شاعر نے اس منظر کو کسی اور ہی نظر سے دیکھا:
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا
17 ستمبر 2025 کو ال یمامہ محل میں وزیراعظم شہباز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ’’اسٹر ٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ‘‘ یقینا ایک تحسین آفرین پیش رفت ہے لیکن اسے دو مقدس مقامات کی حفاظت سونپے جانے کا رنگ دینا دونوں نیشن اسٹیٹس کے عوام کے مذہبی جذبات کی روح کو آسودگی دینے کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں اسلامی ممالک تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اتنے پر جوش کیوں نہیں ہیں؟ مسجد الحرام اور مسجد نبوی الحمدللہ یہودیوں کے قبضے میں نہیں ہیں۔ مسجد اقصیٰ 1967 سے یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہر روز اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
موجودہ مسلم حکمرانوں کے درمیان معاہدے ’’امت مسلمہ کی تڑپ‘‘ سے بے چین ہوکر نہیں بلکہ ان کی حکومتوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مسلم ناٹو جیسے مفروضے اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب ہم اہل غزہ کی بھوک پیاس تباہی وبربادی، دربدری اور نسل کشی پر ان مسلم حکمرانوں کی بے حسی دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں کو امت مسلمہ نامی کسی وجود کی خبر ہے اور نہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے کسی عزم کی۔ ان کا اتحاد اور باہمی دفاعی معاہدے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی شراکت داری امریکا اور ناپاک صہیونی ریاست کے اتحاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدے کے بعد کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ دونوں ممالک فلسطین اور غزہ کو آزاد کرانے کے لیے باہم جدوجہد کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے کردار سے امریکا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں ممالک کو اس معاہدے کی اجازت دی ہے۔ امریکا کو لاعلم رکھ کر یہ معاہدہ کیا گیا، کون یقین کرسکتا ہے؟ دونوں ممالک کے حکمران محض مسلمانوں کے مفادات کے لیے ایسا قدم اٹھا سکیں، امریکی مرضی کے بغیر؟ غالب یاد آجاتے ہیں
تیرے وعدے پہ جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو امریکا اور امریکا کے کہ سعودی کو تسلیم ولی عہد پیش رفت تیل کی کے لیے اور اس کے بعد
پڑھیں:
امن اور انسانیت دشمن امریکا!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-2
غزہ کے علاقے میں محصور، مجبور اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملے پوری شدت سے جاری ہیں۔ درندہ صفت صہیونی فوج نے تازہ حملوں میں غزہ کے 98 فلسطینی شہید کر دیے، 385 فلسطینی زخمی ہو گئے، مسجد شہید اور رہائشی عمارتیں تباہ کر دیں۔ عرب میڈیا کے مطابق صہیونی فوج نے الشفا اسپتال کے قریب بمباری کی جس میں 19 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، اسرائیلی فوج نے ال اہلی اسپتال کے قریب بھی بمباری کی جہاں 4 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا، غزہ شہر میں بمباری سے مسجد سمیت متعدد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ ایک روز میں 98 فلسطینی اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کا نشانہ بنے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہداء کی مجموعی تعداد 65 ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی۔ مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین کے مطابق درجنوں اسرائیلی ٹینک اور فوجی گاڑیاں غزہ شہر کے ایک بڑے رہائشی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں، یہ اسرائیل کی زمینی کارروائی کے دوسرے دن کی پیش رفت ہے جس کا مقصد علاقے پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مزید چار افراد غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد اگست کے آخر میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ادارے کی جانب سے غزہ شہر میں قحط کا اعلان کیے جانے کے بعد سے غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی کل تعداد 154 ہو گئی ہے۔ غزہ شہر سے سامنے آنے والی ویڈیو فوٹیج میں ٹینک، بلڈوزر اور بکتر بند گاڑیاں شیخ رضوان کے علاقے کے کناروں پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں مختلف اقدامات ایسے بھی کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے علاقے میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو چھپایا جا سکے۔ سیودی چلڈرن اور آکسفیم سمیت 20 سے زائد بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہان نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ کی صورت حال کی غیر انسانی نوعیت ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب چین اور سعودی عرب نے اسرائیلی فوجی آپریشن میں توسیع کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ انسانیت سسک رہی ہے اور پوری دنیا کے زندہ ضمیر لوگ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں مگر دوسری جانب امریکا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرار داد ایک بار پھر ویٹو کر دی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے جنگ کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنایا ہو بلکہ سلامی کونسل میں پیش کی جانے والی غزہ میں جنگ بندی کی یہ چھٹی قرار داد ہے جسے امریکا نے یک طرفہ طور پر ویٹو کیا ہے اور یہ ویٹو اس کیفیت میں کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ارکان نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا اور قرارداد کی مخالفت میں واحد فیصلہ کن ویٹو ووٹ امریکا کا تھا۔ امریکی ویٹو کے باعث غیر موثر اور مسترد قرار پانے والی اس قرار داد میں غزہ میں فوری طور پر غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقے میں امدادی سامان کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے۔ یہ قرار داد سلامتی کونسل کے 15 میں سے 10 غیر مستقل رکن ممالک نے پیش کی تھی جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ امریکا کے اس اقدام پر کئی ممالک نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی مندوب مورگن اور ٹاگس نے کہا کہ امریکا اس ناقابل قبول قرار داد کو مسترد کرتا ہے اور حماس سے فوری یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ امریکی نمائندے نے نہایت شرمناک طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکا اپنے شراکت داروں سے مل کر اس خونریز تنازعے کے خاتمے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ معلوم نہیں سفاک اور درندہ صفت اسرائیل کے علاوہ کون سے شراکت دار ہیں جن سے مل کر امریکا خونریز تنازعے کے خاتمے کا دعویدار ہے جب کہ سامنے کی حقیقت تو یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور دس غیرمستقل ارکان میں سے چودہ نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور صرف امریکا نے اس کی مخالفت کی گویا ساری دنیا ایک طرف ہے اور صرف امریکا پوری دنیا کے مقابل کھڑا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس ساری صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے غزہ میں جنگ بندی کا راستہ روکنے والے امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے دیگر خطوں میں جنگیں بند کروانے کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتا اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کروانے کا بھی دعوے دار ہے۔ وہ یوکرین اور روس میں جاری جنگ رکوانے کے لیے کوششوں کا کریڈٹ لینے کا بھی شدت سے خواہاں ہے یہی نہیں وہ اپنی اس امن پسندی کے صلہ کا بھی دنیا سے ’’نوبل امن انعام‘‘ کی صورت میں طلب گار ہے اور پاکستان جیسے بعض ممالک معلوم نہیں کن دلائل کی بنیاد پر اس کی غزہ میں مسلمانوں کی خونریزی اور نسل کشی کی سرپرستی جیسے سفاکانہ اور امن دشمن اقدامات کو نظر انداز کر کے اسے ’’نوبل امن انعام‘‘ دیے جانے کی تائید و حمایت پر کمر بستہ ہیں! دریں اثنا اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین خصوصاً بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’کراچی چلڈرن غزہ مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لبیک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک اللھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فی صد اسکول اور 90 فی صد اسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے ، اس کی قرار دادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جب کہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکا فلسطین میں انسانیت کے قتل عام کی سرپرستی اور پشت پناہی کر رہا ہے امیر جماعت اسلامی نے چلڈرن مارچ سے خطاب میں بجا طور پر اقوام متحدہ کی بے عملی اور امریکا کی دو عملی کی جانب عالمی ضمیر کو متوجہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل مختلف سطحوں پر احتجاج منظم کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے بھی ’الخدمت‘‘ کے ذریعے ہمہ تن مصروف عمل ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی مسلمانوں کی مدد صرف جماعت اسلامی کی ذمے داری ہے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اس معاملہ میں بری الذمہ ہیں؟ کیا غزہ کا جہاد فرض کفایہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی کے متحرک ہونے سے دیگر پوری قوم سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا؟؟