Express News:
2025-09-22@00:02:34 GMT

پاک سعودی دفاعی معاہدہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے حالیہ دفاعی معاہدے نے دونوں برادر اسلامی ملکوں کو مزید قریب کر دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اول دن سے گہرے اور دیرینہ اسلامی روابط اور مثالی تعلقات نہ صرف عرب دنیا بلکہ مغربی ممالک میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ حجاز مقدس میں خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی جذباتی اسلامی وابستگی اپنی مثال آپ ہے۔

دونوں ممالک دین اسلام سے گہری قلبی عقیدت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب وہ سرزمین ہے جہاں اسلام کا نزول ہوا، جو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ تحریک پاکستان کے دوران یہ نعرہ زبان زدعام تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الا اللہ‘‘ اس نسبت سے پاکستان اور سعودی عرب گہرے اسلامی رشتوں کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔ ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کی مالی و معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے چار قدم آگے بڑھ کر مدد کی اور قومی معیشت کو سہارا دیا۔

حالیہ دو طرفہ دفاعی معاہدے کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق سب سے اہم اور کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے اتحادی ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر کارروائی کریں گے، ایک ملک کی فوجی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کے لیے استعمال کی جا سکے گی۔سعودی عرب کے مقدس مقامات خانہ کعبہ اور روضہ رسول کے تحفظ کے لیے پاکستان پورے اسلامی جذبے اور بھرپور ایمانی قوت اور عسکری طاقت کے ساتھ سعودی عرب کے قدم بہ قدم ساتھ کھڑا ہوگا اور دونوں ممالک بھرپور جنگی مہارت اور صلاحیت کو بروئے کار لا کر ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔

اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین آٹھ دہائیوں پر مشتمل تاریخی شراکت داری ہے اور یہ معاہدہ بھی دونوں ملکوں میں مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں طے پایا ہے جو دونوں ممالک کی سلامتی کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے ’’اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ پر پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دستخط کیے ہیں جو اپنے وطن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیزی سے نت نئے منصوبے بنا کر سعودی عرب میں نئی اصلاحات متعارف کروا رہے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ اس امر کا عکاس ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک کو نہ صرف یہ کہ جدید سماجی، معاشی اور اقتصادی حوالے سے مضبوط بنا رہے ہیں بلکہ وہ مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال بالخصوص اسرائیل کے جارحانہ اور اسلامی ملکوں کے خلاف اس کے توسیع پسندانہ گریٹر اسرائیل منصوبے پر گہری نظر رکھتے ہیں اور خلیجی ممالک کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے کے لیے وہ پاکستان کی عسکری صلاحیت جنگی مہارت اور موجودہ فوجی قیادت پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ پاک سعودی معاہدے میں پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ان کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان نے بھارت جیسے عیار اور چار گنا بڑے دشمن کو جس عبرت ناک اور شرم انگیز شکست سے دوچار کیا ہے، اس کی ایک دنیا معترف ہے۔ پاک فوج کی جنگی مہارت اور حربی صلاحیت کی پوری دنیا میں دھاک بیٹھ چکی ہے، عالمی سطح پر پاکستان کا جو عسکری کردار ابھر کر سامنے آرہا ہے اس میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم کے مرکزی رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاک سعودی معاہدے کے حوالے سے دفاعی ماہرین، سیاسی تجزیہ نگار و مبصرین مختلف النوع آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ معاہدے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کا پس منظر قطر پر اسرائیل کا حالیہ حملہ ہے اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم مقدس سرزمین تک جا سکتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے زاویے کیا ہوں گے اور پاکستان کس حد تک اپنا کردار ادا کر سکے گا۔ بعینہ بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کی صورت میں سعودی عرب اپنا عسکری رول کیسے ادا کرے گا۔ یہی اس معاہدے کا بنیادی سوال ہے جس پر مبصرین و تجزیہ نگار اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے ’’دیکھیے اور انتظار کیجیے‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال پاک سعودی دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کے لیے حوصلہ افزا اور اچھی خبر ہے جب کہ بھارت اور اسرائیل کے لیے بری خبر ہے۔ ان کی آہ و فغاں ناقابل فہم نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب اور سعودی عرب کے دونوں ممالک پاکستان کے پاک سعودی رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ

حمیداللہ بھٹی

پاکستان اور سعودی عرب میں مشترکہ دفاع کا معاہدہ غیر متوقع پیش رفت نہیں کیونکہ ایسا کچھ ہونے کا امکان تھا ۔البتہ معاہدہ اتنی خاموشی سے طے پاجائے گا یہ غیر متوقع ضرورہے ۔شایداِس کی وجہ یہ ہوکہ دونوں کودبائو کاخدشہ تھا۔ اسی لیے کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی ۔سترہ ستمبر کو طے پانے والے معاہدے نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور امریکہ کی خاموشی نے عربوں کواُس نہج پرپہنچا دیا کہ وہ امریکہ پر دفاعی انحصار کرنے کے علاوہ بھی سوچنے لگے ہیں بلکہ ایسا امکان موجود ہے کہ دیگر ممالک بھی اسی قسم کے معاہدوں کی طرف جا سکتے ہیں ۔
تھوڑے عرصے کے لیے عرب ممالک بدظن رہے ۔مایوسی کی وجہ پاکستان کی کمزور معیشت بنی مگر رواں برس چھ سے دس مئی تک کے پاک بھارت واقعات نے دنیا کی سوچ تبدیل کردی اورعربوں کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ پاکستان کے سواکوئی اور ملک اُنھیں دفاع میں مددنہیں دے سکتا۔یہ ہے بھی توانہونی بات کہ آٹھ گُنا بڑا ملک سینکڑوں طیاروں سے حملہ آور ہوتا ہے اور اربوں مالیت کے سات جدید ترین لڑاکا طیارے تباہ کرانے کے بعد پسپائی اختیارکرلیتا ہے ۔دس مئی کو نمازِ فجر کے بعد جوابی حملہ شروع ہوتا ہے اور نمازِ عصر کے وقت بے مثال کامیابی پرشکرانے کے نوافل بھی ادا کرلیے جاتے ہیں۔بے مثال جنگی مہارت اور صلاحیتوں سے پاک فوج نے باورکرادیاکہ وہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی اور موثر فوج ہے ۔مئی واقعات نے عدمِ تحفظ کا شکارعربوں کے دل جیت لیے اور وہ دوبارہ پاکستان کے قریب آئے۔ رواں ماہ 9ستمبر کو قطر پر اسرائیلی حملے نے مزیدجھنجوڑاجس کی وجہ سے ایسی نئی دفاعی حکمت ِعملی پر غور کرنے لگے جو اسرائیلی جارحیت کا توڑ کرسکے ظاہر ہے پاکستان دنیا کا واحد جوہری ملک ہے جس کے پاس تمام اسلامی ممالک سے بڑی فوج ہے جوکسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کُن نتائج دے سکتی ہے، اسی بناپر سب کی نظریں اب پاکستان پر ہیں۔
قطر کی طرف سے طلب کی گئی ہنگامی عر ب و اسلامی سربراہی کانفرنس میں اسلامی قیادت کوملنے اور تبادلہ خیال کااچھا موقع ملا۔ اِس ہنگامی سربراہی کانفرنس میں جہاں میزبان قطر سمیت اسرائیلی خطرے سے دوچاردیگر عرب ممالک تک اظہارِ خیال میں محتاط رہے۔ وہاں پاکستان نے واشگاف الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے غاصب ملک قرار دیا اور قطری قیادت کو یقین دلایا کہ جوابی کارروائی کا آپ جو بھی فیصلہ کریں پاکستان ہر طرح کاساتھ دینے کو تیار ہیں۔ مشترکہ فورس کی تجویز تک پیش کی قیافہ ہے کہ اسی دوران پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک سنوارلی گئی۔ قبل ازیں ایران پر اسرائیلی حملے کی بھی پاکستان نے سخت مذمت کی اور ایران کی ہرممکن سفارتی و سیاسی مدد کی جس پر ایرانی قیاد ت نے نہ صرف پارلیمنٹ میں پاکستان کا نام لیکر تشکر تشکر کے نعرے لگائے بلکہ ایرانی صدر،سعود پزشکیان خاص طورپر شکریہ ادا کرنے پاکستان آئے۔ آج ایران اور اُس کے حامی بلکہ سعودی عرب اور اُس کے حامی دونوں ہی پاکستان کے ممنون ہیںمگروہ عالمی طاقتیں جن کامفادخطے کے عدمِ استحکام میں ہے۔ وہ پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کے معاہدے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتیں ۔جب ٹی ٹی پی جیسے شدت پسنداور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے قوم پرست گروہ پہلے ہی اُن کے رابطے میں ہیں۔ پاکستان کو بظاہراب بیرونی جارحیت کا خطرہ نہیں مگر احتیاط کا تقاضا ہے کہ دفاعی معاہدے کے ردِ عمل پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ امریکہ سے چاہے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہیں مگر اُس کی اولیں ترجیح ہمیشہ سے اسرائیل ہے ۔ممکن ہے بھارت اور اسرائیل دونوں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے دہشت گردوں کواستعمال کرتے ہوئے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات خراب کرنے کی کوشش کریں۔ اربابِ اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہن میں رکھیں کہ جتنا بڑا مقصد حاصل ہوتا ہے، ویساہی ردِ عمل بھی آ سکتاہے بڑے مقاصد کے لیے اندرونی کمزوریاں دورکرنادانشمندی ہے۔
مکہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات کی سرزمین ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان سعودی عرب سے خاص لگائو رکھتے اورمقدس مقامات کادفاع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے دفاعی معاہدے پر ہر پاکستانی خوش ہے۔ سعودی بادشاہوں سے شریف خاندان کا ذاتی تعلق ہے۔ 2015 میںجب یمن عدمِ استحکام سے دوچار ہواتو بھی سعودی عرب اور عرب امارات نے پاکستان سے فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تھامگر پارلیمنٹ نے جب توثیق نہ کی تو سعودیہ اور امارات نے ناراض ہوگئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کو ولی عہد محمد بن سلیمان نے ذاتی طیارہ دیکر راستے سے واپس منگوالیا جوتلخی بڑھانے کاباعث بنا۔اسی دوران سی پیک کے حوالے سے چین کی طرف سے ناخوشی کے اِشارے بھی آئے جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ مگر مئی کی جنگ نے صورتحال یکسر بدل کر پاکستان کو اہم ترین بنادیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے جس آرمی چیف کو ناشتے پر مدعو کیا ہے وہ جنرل عاصم منیر ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صدر ٹرمپ نے سب سے کم ٹیرف پاکستان پر لگایا۔ اِس وقت تمام مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ امریکہ ، روس،چین،برطانیہ سے تعلقات بھی ہموار ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کارپاکستان کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ یہ کامیاب سفارت کاری مئی کی جنگ کاصلہ ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر آئے تو رائل ائیر فورس کے طیاروں کا سکارٹ کرنابھی تاریخی واقعہ ہے۔ ماضی میں ایسا صرف امریکی صدور کی آمد پر ہی ہوتارہا۔ اگر ارباب وبست وکشاد نے کوئی حماقت نہ کی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام کا شکارنہ ہونے دیاتو دفاعی قوت بننے کے ساتھ پاکستان کا معاشی قوت بننے کا بھی قومی امکان ہے ۔کیونکہ عربوں کو لڑاکا فوج اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے تو ہماری معیشت کو اربوں کی۔ذرا سی بے احتیاطی منزل دو ر کرسکتی ہے ۔ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ بھارت کو زمین اور فضامیں شکست دے چکے لیکن سندھ طاس معاہدہ اورمسئلہ کشمیر سمیت کئی ایسے پیچیدہ مسائل حل ہونا ہیں۔ بھارت نے فوجی شکست کا بدلہ آبی جارحیت سے لے لیا۔ مزید مکاریوں اور سازشوں کی بھی توقع ہے۔ افغان طالبان سے تعلقات ہموارنہیں اسرائیل وغیرہ جیسا ناہنجار کوئی شرارت کرے تو عبرت کا نشان ضرور بنائیں مگر یمنی حوثیوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں ،جب سعودیہ ،قطر اور عرب امارات تین ہزار ارب ڈالر دے بھی دھوکاکھاتے ہیں۔ ہم نے تولڑناہے لہٰذا 1980 کے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک ازرسرِ نو سنوارنابہتر ہوگا روس اور اسرائیل کے پیداکردہ حالات سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر محسوس ہوتے ہیں ۔اِس لیے دفاعی معاہدے پر شادیانے بجانے کے ساتھ ہر پہلو کو ذہن میں رکھاجائے۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سعودی عرب تاریخی دفاعی معاہدہ...بدلتی دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے!!
  • معاہدہ اور رومانوی دنیا!
  • پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ
  • پاک، سعودی معاہدہ :’’آباد‘‘ کی صدر،وزیراعظم اور فیلڈمارشل کو مبارکباد
  • سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ سے دنیا میں نئی تاریخ رقم ہوگئی؛ گورنر پنجاب
  • سعودی عرب سے معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں، پاکستان
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، آج یوم تشکر منایا گیا
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی پیشرفت ہے، مشاہد حسین
  • پاکستان‘ سعودی عرب معاہدہ‘ دونوں کو اسلامی دنیا کی قیادت کرنی چاہئے: فضل الرحمن