پاکستان سعودی عرب دفاعی اشتراک بھارت اسرائیل میں بے چینی
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250922-03-7
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ بلاشبہ خطے کی سیاست، عالمی تعلقات اور خصوصاً بھارت اور اسرائیل کے لیے گہرے اثرات کا حامل ہے۔ اس معاہدے سے بھارت کو دھچکا لگا ہے۔ پاکستان نے بنیان مرصوص کی کامیابی سے معاشی اور دفاعی اعتبار سے اپنی حیثیت مستحکم کی ہے۔ یہ معاہدہ محض دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کی علامت نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کا پیش خیمہ ہے۔ سعودی عرب اسلامی دنیا کا روحانی مرکز ہے اور پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت رکھنے والی مسلم ریاست ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اگر اسٹرٹیجک دفاعی اتحاد قائم ہوتا ہے تو اس کے اثرات براہِ راست بھارت اور اسرائیل پر پڑنا ناگزیر ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ اپنے معاشی و سفارتی تعلقات کو مضبوط کرے تاکہ پاکستان کے کردار کو کمزور کیا جا سکے۔ مگر اب جب سعودی قیادت نے پاکستان کے ساتھ دفاعی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی پریشانی اس حقیقت سے جڑی ہے کہ سعودی عرب کی بڑی سرمایہ کاری اور تیل کی فراہمی بھارت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت ہر سال سعودی عرب سے اربوں ڈالر کا تیل درآمد کرتا ہے اور اس کی ایک بڑی افرادی قوت بھی خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ دفاعی اتحاد بھارت کے لیے سفارتی اور تزویراتی سطح پر واضح پیغام ہے کہ سعودی عرب اب جنوبی ایشیا میں بھارت کو یکطرفہ اہمیت دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے قریب تر لا رہا ہے۔ بھارت کو خوف ہے کہ اس اتحاد کے بعد سعودی عرب پاکستان کی دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کرے گا، ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں تعاون بڑھے گا اور پاکستان کو اقتصادی سہارا ملے گا جس سے خطے میں بھارت کے اثر رسوخ کو چیلنج ملے گا۔
اس اتحاد کے اسرائیل پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل گزشتہ چند برسوں سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکا کی سرپرستی میں بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم ہوں تاکہ اسرائیل کو مسلم دنیا میں مزید قبولیت حاصل ہو۔ لیکن پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ اسرائیل کے لیے ایک رکاوٹ بن کر سامنے آیا ہے۔ کیونکہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرتا اور سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ اس حد تک قریبی دفاعی تعلقات قائم کرنا اسرائیل کے اس خواب کو کمزور کر دیتا ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ یہ اتحاد مسلم دنیا میں ایک نئی مزاحمتی فضا پیدا کرے گا جس سے اس کے خطے میں مفادات متاثر ہوں گے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب اگر اپنی دفاعی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو یکجا کرتے ہیں تو یہ اسرائیل کے اسٹرٹیجک عزائم کے لیے براہِ راست خطرہ ہوگا۔
بھارت کے ردعمل کی بات کی جائے تو ابتدائی طور پر نئی دہلی نے اس معاہدے کو محتاط انداز میں دیکھا ہے۔ بھارتی میڈیا اور تھنک ٹینکس نے اسے خطے کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا ہے اور کئی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تزویراتی تعلقات اس کے خلاف براہِ راست استعمال ہو سکتے ہیں، خصوصاً کشمیر کے مسئلے پر۔ بھارت کو خوف ہے کہ سعودی عرب اب پاکستان کے مؤقف کو زیادہ تقویت دے گا اور اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) میں پاکستان کی آواز کو مزید پذیرائی ملے گی۔ بھارت نے پس ِ پردہ کوششیں شروع کر دی ہیں کہ کسی طرح سعودی قیادت کو قائل کرے کہ یہ معاہدہ بھارت مخالف نہ بنے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ دفاعی اتحاد خود بخود بھارت کے لیے دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ قدم چین کے وسیع تر منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے بھی جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ پاکستان پہلے ہی سی پیک کے ذریعے خطے میں چین کا اہم شراکت دار ہے اور اگر سعودی عرب بھی اس دائرے میں شامل ہوتا ہے تو بھارت خطے میں مکمل طور پر تنہا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی حکومتی مشینری اس وقت پریشانی میں مبتلا ہے اور اس کے سفارتی محاذ پر تیز رفتاری سے سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بھارت کے اخبارات میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان قربت ایک فطری امر ہے کیونکہ دونوں ممالک مذہبی، تاریخی اور اسٹرٹیجک رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے تھنک ٹینکس اور میڈیا نے بھی اس اتحاد پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان جیسے ایٹمی ملک کے ساتھ دفاعی اتحاد میں شامل ہو کر دراصل اسرائیل کے خلاف ایک بلاک تشکیل دے رہا ہے۔ اسرائیل کو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سعودی عرب کی مالی قوت اگر یکجا ہو جائیں تو یہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل کر دیں گے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان پہلے ہی گہرے دفاعی تعلقات موجود ہیں، دونوں ممالک جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرتے ہیں۔ مگر اب جب سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ایک نئی راہ پر گامزن ہوا ہے تو اسرائیل اور بھارت کو یہ خطرہ ہے کہ ان کی مشترکہ حکمت ِ عملی کو ایک مؤثر چیلنج مل سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی اعتبار سے بلکہ اقتصادی اور سفارتی سطح پر بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو سعودی عرب سے مزید سرمایہ کاری ملنے کے امکانات ہیں، توانائی کے منصوبوں میں تعاون بڑھے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی عالمی سطح پر پوزیشن مضبوط ہوگی۔ اس کے برعکس بھارت کو اپنی سفارت کاری میں بڑے جھٹکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ وہ خطے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ اتحاد اس کے لیے طویل المدتی خطرہ ہے۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ خطے میں ایک نیا تزویراتی بیانیہ تخلیق کرے گا۔ بھارت کا ردعمل بظاہر محتاط ہے لیکن درحقیقت اس کے اندر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسرائیل بھی اس پیش رفت کو اپنی پالیسیوں کے خلاف سمجھ رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس اتحاد کو مزید مستحکم کرے اور اسے محض دفاعی تعاون تک محدود نہ رکھے بلکہ سیاسی، معاشی اور سائنسی شعبوں میں بھی اسے وسعت دے۔
اقدامات کے طور پر ضروری ہے کہ پاکستان اپنی سفارت کاری کو مزید فعال بنائے، سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کے عملی پہلوؤں پر فوری پیش رفت کرے اور دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس عمل میں شامل کرے تاکہ ایک جامع مسلم دفاعی بلاک تشکیل دیا جا سکے۔ پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اس موقع کا بھرپور استعمال کرے اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر خلیجی ممالک کی حمایت بھی حاصل کرے۔ اسی طرح پاکستان کو اپنی دفاعی صنعت میں جدت لانی چاہیے تاکہ سعودی عرب کے تعاون سے جدید ٹیکنالوجی تیار ہو اور پاکستان خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کو اپنے داخلی استحکام اور سیاسی اتحاد کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر اس کے اسٹرٹیجک فیصلوں کو مکمل کامیابی مل سکے۔ یہ معاہدہ محض ایک کاغذی دستاویز نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے جسے دانشمندی، حکمت اور یکجہتی کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو خطے میں طاقت کا توازن پاکستان اور مسلم دنیا کے حق میں جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ پاکستان اور سعودی عرب پاکستان اور سعودی عرب کا سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے ساتھ ہے کہ سعودی عرب ہے کہ پاکستان بھارت کے لیے دفاعی اتحاد اور پاکستان پاکستان کی پاکستان کو اسرائیل کو اسرائیل کے کے درمیان یہ معاہدہ اس اتحاد بھارت کو بھی اس رہا ہے اور اس ہے اور
پڑھیں:
پاکستان–سعودی عرب دفاعی معاہدہ: بھارت کی سفارتکاری کو بڑا جھٹکا!
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریاض میں ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے نے خطے کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ دفاعی اتحاد نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی بدل سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی دورے کیے، لیکن بالآخر سعودی ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدہ کرکے بھارت کو بڑا دھچکا دیا۔
https://x.com/Chellaney/status/1968567513395974228?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1968567513395974228%7Ctwgr%5E9fd26166bcaed65aa6e87d8a1bf6dbd599673332%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fapnegnu.geo.tv%2Fgeonewimages%2Fcontent%2Fposts%2Fedit%2F415891
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا تھا، تاہم پاکستان اور سعودی عرب کی نئی شراکت داری نے نئی جیو پولیٹیکل بحث چھیڑ دی ہے۔