ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کو اس سے پہلے ترقی کے مواقع نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس سے پہلے کبھی ہمیں روشنی کی کرن نظر نہ آئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہمیں امت مسلمہ میں ممتاز مقام ملنے کا پہلے موقع نہیں ملا۔ یہ سب بارہا ہوا۔ لیکن ہم نے یہ مواقع گنوا دیے۔ ملک کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور تاریخ میں مقام حاصل کرنے کے بجائے ذات کو ترجیح دی اور وہ تمام مواقع گنوا دیے۔ اس دفعہ صورت حال کتنی مختلف ہے۔ پہلے کیا ہوا تھا اور اب کیا کرنا ہے؟ ماضی سے صرف اتنا پردہ اٹھانا ہے۔
وقت بہت بیت گیا مگر ماضی کی راکھ کبھی کبھی کریدنی چاہیے تاکہ دھواں تو اٹھے، تاکہ چنگاری تو بھڑکے، اپنی غلطیوں پر ماتم تو ہو۔ اپنے اعمال کا احوال تو بیان ہو۔
یاد رکھیں وقت گزرنے سے تاریخ دفن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لگائے زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبق زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیاں زیادہ فاش نظر آنے لگتی ہیں۔ تاریخ آپ کو ذات اور وقت کے حصار سے نکال کر منظر کو دور سے رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
بھٹو صاحب کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی۔ وہ ملک جو ابھی دو لخت ہوا تھا اس کا تشخص بحال ہوا۔ سعودی رہنما شاہ فیصل شہید نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی کو قبول فرمایا۔ مسلم ممالک کا ایک فعال بلاک بننے کی بات ہوئی۔ غربت کے اندھیرے چاک کرنے کا اعلامیہ آیا۔ ایک دوسرے کے بازو بننے کا حوصلہ ملا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ کارنامہ تھا جس سے امریکا اور یورپ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر قسمت کا پھیر الٹا چلا۔ شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ ہماری جھولی میں اندھیرے تھے وہ اندھیرے ہی رہ گئے۔
اس کے بعد ایک موقع آیا، افغان جہاد کا۔ جہاں دو سپر طاقتوں کی جنگ تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونا تھی۔ روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ درمیان میں افغانستان اور پاکستان حائل تھے۔ ضیاالحق کا دورتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کو ہماری ضرورت تھی ۔ جب امریکا اور یورپ دست بستہ ہم سے ملتمس تھے۔ امریکا کی سلامتی کی ذمہ داری ہم کو سونپ دی گئی تھی۔
آج جو لوگ یہ منظر دیکھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے درخواست کر رہے ہوتے ہیں انہیں شاید یاد نہ ہو کہ ہم نےا س وقت امریکی امداد کو مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔ ہم اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے روس کو شکست دینا تھی لیکن صرف روس کو شکست دینا ہمارا منصب اور مقام نہیں تھا۔ ہم نے اپنے ملک کو بھی ترقی دینا تھی۔ یہاں ڈیم بننے تھے۔ یہاں یونیورسٹیاں اور اسکول کھلنے تھے، سڑکیں تعمیر ہونا تھیں۔ ترقی ہونی تھی۔ ہم روس سے جنگ میں اس قدر غرق ہوئے کہ ہم اپنی حالت سنوارنا بھول گئے۔ ہم نے روس کو برباد کر دیا لیکن برباد ہم خود بھی ہو گئے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے حصے میں صرف ایسا نقصان آیا جو اب بھی ہم بھر رہے ہیں۔
انیس سو اٹھانوے میں ہم نےا یٹمی تجربات کیے ۔ بھارت کو ناکوں چنے چبو ادیے۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس خطے کا چوہدری ایک ہی ہے۔ بھارت منی سپر پاور ہے۔ لیکن اس منی سپر پاور کا چند دنوں مِں ہی بھرکس نکل گیا جب پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس واقعے کی دھاک لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارت کی برتری دنوں میں خاک میں مل گئی۔ دنیا اس واقعے پر بھی ہماری طرف بہت چاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونا تھا مگر ہم نےا س موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے والے کو قید کیا اوراندرونی خلفشار کا شکار رہے۔ دنیا جو ہم پر فخر کر رہی تھی ہم پر ہنسنے لگی ۔ ہم جو تماشا کر رہے تھے خود تماشا بن گئے۔
نائن الیون بھی ایک موقع تھا، جب دنیا کو ہماری عسکری قوت کی ضرورت پڑی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دہشتگردی کے خوف سے پاکستان نجات دے سکتا تھا۔ ہم اس وقت امریکا سے ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر ہم نے بارگینگ درست نہیں کی، ہم نے ان کے تو سارے کام کیے مگر اپنی باتیں ان سے منوانا بھول گئے۔ ایک کال پر ہم ایسے ڈھیر ہوئے کہ اس کے بعد دیر تک نہیں اٹھ سکے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ تاریخ ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔
پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے معنی اور مفاہیم بہت وسیع ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ ایک عہد ساز معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے پس منظر میں ہماری وہ کامیابی ہے جو ہم نے معرکہ حق میں حاصل کی ہے۔ اس دن سے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کی قطر میں جارحیت نے اس معاہدے کے امکانات کو مہمیز بخشی ہے۔ اب ایک بار پھر دنیا کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ اب ایک بار پھر مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔ اب ایک بار پھر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں۔ اس موقع کو پہلے مواقع کی طرح ضائع کیا تو کف افسوس ملنے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہمیں مسلم امہ کی خدمت بھی کرنی ہے، دنیا میں بھی باوقار نام بنانا ہے۔ لیکن اس کےساتھ اس ارض پاک کو بھی ترقی دینی ہے۔ یہاں سے افلاس ، بے روزگاری اور جہالت کو ختم کرنا ہے۔ اب ترقی کےسوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
تاریخ کی یہ ساعت مبارک ہے۔ یہ لمحہ عظیم ہے۔ ہم سے مسلم امہ امیدیں وابستہ کر رہی ہے۔ ہم سے دنیا ملتمس ہو رہی ہے۔ یہ وقت ماضی کے مواقع سے اس لیے مختلف ہے کہ اس وقت ہم سے نہ صرف ایٹمی قوت کے طور پر کچھ توقعات لگائی جا رہی ہیں بلکہ اس کے بدلے ہم سے حرم پاک کی حفاظت کی سعادت بھی عطا کی جا رہی ہے۔ وہ حرم پاک جہاں کا ذکر کرتے پلکیں وضو کرتی ہیں۔ ہمیں اس زمیں کی حفاظت کا ذمہ بھی مل رہا ہے اور مسلم امہ کی پاسبانی بھی تفویض کی جا رہی ہے۔
شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ یہ اعزاز انہیں نصیب ہوا کہ طیاروں کی سلامی ان کو دی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان ان کے استقبال کے لیے آئے۔ معاہدہ فیلڈ مارشل کی معاونت میں ایک مقدس سرزمیں پرہوا۔ ایک لمحے کو سوچیں یہی حرمین شریفین تھے، یہی مقامات مقدسہ تھے۔ اور یہاں پی ٹی آئی کے لوگ تھے جنہوں نے عورتوں کو گالیاں دیں، بال کھینچے۔ جہاں ادب سے نگاہ نہیں اٹھتی وہاں سیاسی نعرے لگائے۔ سیاسی نفرت کی دکان سجائی۔
آخری بات فوج کو لوگ نفرت میں چوکیدار کہہ کر پکارتے تھے۔ جسے چوکیدارکا الزام دیتے تھے، اسے پاسبانی کا فرض سونپ دیا گیا۔ اب یہ الزام نہیں اعزاز ہے۔ تضحیک نہیں، توقیر ہے۔ ہتک نہیں، سعادت ہے۔ اس مقام کی جہاں کی خاک کے ایک ذرے پر ساری مسلم امہ دل و جان سے قربان ہے۔ اس سے بڑھ کر سعادت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اس سے بڑھ کر عظیم حفاظت کوئی اور نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے بعد ہوا کہ کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
آنکھیں بند کر لو
یہ بات ہے 1515 سے 1516 کے درمیان کی، جب یہودی بستیاں جو وینس میں آباد تھیں، انھیں گھیٹو کے نام سے پکارا جانے لگا، یہ دراصل وہ حد بندی تھی جو یہودیوں کو غیر یہودیوں سے علیحدہ کرتی تھی۔ جرمنی میں یہودیوں کو اس طرح رکھنے کا مقصد کسی پلاننگ کی جانب اشارہ کرتا تھا اور ایسا ہوا بھی، تاریخ نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودی جو ان بستیوں میں بری حالت میں رہتے تھے، باقاعدہ تباہ کی گئیں، یہ دراصل کرہ ارض سے یہودیوں کو ختم کرنے کی ایک سازش تھی۔ ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں ان پر مظالم کیے اور جہنم برد کیا۔
بچے کچے یہودی دنیا بھر میں پھیل گئے۔ ہولو کاسٹ کی تاریخ میں یہ بھی ثبت ہے۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہٹلر کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ ہو سکا جو وہ چاہتا تھا۔ گویا قدرت انھیں کسی اور پلاننگ کے تحت زندہ رکھنا چاہتی تھی۔ ہم مسلمان بھی ان کی اس اذیت ناک صورت حال پر پریشان تھے۔ آپ ماضی کے دھندلکوں میں جھانکیں تو فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ اسی طرح کی ایک مثال تھی۔
تمام گھیٹو (یہودی بستیاں) کو تباہ کرنے کی پلاننگ اس حد تک کارگر رہی کہ وہ قتل کر دیے گئے۔ وبائی اموات کا شکار ہوئے، چھپ کر رہنے پر مجبور ہوئے یہاں تک کہ گٹر لائنوں تک میں انھوں نے زندگی گزاری، بہت سے اپنی شناخت چھپا کر دنیا میں گم ہو گئے۔ پولینڈ میں ان بڑی بستیوں میں مزاحمت بھی کی گئی۔
دوسری جنگ عظیم میں اندازاً 80 ملین افراد ہلاک ہوئے یہ ایک بڑی آبادی یعنی عالمی آبادی 1940 کے مطابق کا تین فیصد، بہرحال اس لمبی چوڑی بحث کا مقصد صرف اتنا تھا کہ یہودی ایک ناپسندیدہ قوم تھے اور ہیں۔ لیکن تمام وجوہات کے باوجود انھوں نے اپنے وجود اور تشخص کے لیے اپنے مذہبی منصوبے کی تکمیل کے لیے شیطانی چالوں پر چلتے ایک نئے انداز کو چنا۔ ان کی ترقی اور ترویج میں قدرت نے ان کو مواقع فراہم کیے اور آج جس صورت حال میں ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں اسے دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدرت ہے اس ذات کی جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر ہٹلر چاہتا تو یہودی مکمل طور پر دنیا سے نیست و نابود ہو جاتے پر ایسا نہ ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آج ہم یہ افسوس ناک پہلو سے کہتے نظر آ رہے ہیں، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
نیتن یاہو کو دنیا کا غنڈہ، بدمعاش بنا کر کیوں مسلط کیا جا رہا ہے، کیا واقعی اس کے پاس اتنی بڑی تعداد میں افواج ہیں کہ وہ کسی پر بھی اپنا تسلط قائم کر سکتا ہے۔ امریکا یا یورپی یونین کے حوالے سے یہ صورتحال اسی طرح واضح ہے کہ کچھ نامنظور اور کچھ منظورکی صدائیں لگاتے ہیں پر حقیقت یہی ہے کہ فلسطین پر اب اس کے مقامیوں کی تعداد انتہائی گھٹ چکی ہے۔ وجہ یہود و نصاریٰ مل کر اپنے منصوبے کی تکمیل میں جتے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرور ترین یہود جو پہلے ہی اپنی ناشکری اور غرورکے باعث رب العزت کی جانب سے ناپسندیدہ ٹھہرے تھے، نصاریٰ کو اپنا نہیں سمجھتے ۔
حالیہ قطر پر اسرائیل کے حملے پر بھی بڑی مذمت اور صدائیں اٹھ رہی ہیں واہ جی، تہذیب اور اخلاق کا دامن کہ بس یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہی تو جڑا ہے۔ ابراہیم اکارڈ کے باوجود بھی ایسا سلوک۔ اول تو ابراہیم اکارڈ ہی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ محدود دماغ رکھنے والے اتنے ہی ذہین ہیں تو فلسطین اورکشمیرکا حل نکال لائیں پر ہائے یہ ابراہیم اکارڈ کے پاسبان۔ اس طرح تو بس ہم مسلمان ہی کسے ہیں معاہدے کی زنجیروں میں اور باقی سارے کھلے غنڈے دندناتے پھر رہے ہیں۔ دراصل بظاہر مسلمانوں کو ایک معاہدے کے تحت قابو میں لانے کا تحریر نامہ کہ بھائی بھائی ہو، اب آگے جو ہم بھائی دوسرے بھائی کے ساتھ کریں گے وہ تم دیکھنا کہ اس دنیا میں تو سگا بھائی زمین کے لیے قتل کر ڈالتا ہے، ہابیل قابیل تو سب کو یاد ہے، پر اب کیا یاد دلانا کہ یہ ساری یاد دہانیاں ہم مسلمانوں کے لیے ہی ہیں اور باقی سارے اپنے خنجر ویسے ہی تیز کر رہے ہیں جو انھوں نے ابراہیم اکارڈ سے پہلے کے لیے تیار رکھے تھے۔
بات قدرت کی ہو تو بس ہر سُو خاموشی چھا جاتی ہے پر یہ ان کی ہی حکمت ہے کہ اپنے اپنے اعمالوں کی فصل بو اور کاٹو کہ یہی ہمیں اس دنیا میں کرنا ہے۔ ہمارا اچھا برا عمل ہی ہمارے کھاتے میں لکھا جائے گا اور مسلمان ہونے کے ناتے یہ تو طے ہے کہ سب کچھ رب العزت کی مشیت کے بغیر نہیں، پر ہمارا اپنا عمل۔ ہم بڑے سفید ہاتھیوں کی سونڈوں، ان کے حجم، ان کے جنگی آلات سے کس قدر متاثر اور رعب میں ہیں کہ ہمیں یہی سوجھتا ہے کہ ہاتھ ملاؤ اور بات مکاؤ کہ جان بڑی ہے، لیکن کیا ایسا قطر کے ساتھ ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک امیر مہنگی اسٹیٹ ایک مہنگا ترین تحفہ عنایت کرتی ہے اور وہ سر جھکا کر دانت نکال کر وصول کرتا ہے پھرکیا ہوا۔
ابھی زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں، جب اسرائیل نے اپنے اسرائیلیوں کو امارات سے نکل جانے کا کہا تھا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ اب اسرائیل کا ارادہ کیا ہے وہ پہلے ہی ترتیب دے چکا ہے،کیونکہ نیتن یاہو کی طبعی عمر بھی ایک ہی حد تک ہے ابھی تک وہ بیج ایجاد نہیں ہوا جو کسی انسان کی عمر میں اضافہ کر دے۔ لہٰذا نیتن یاہو اپنی اسی عمرکے ہوتے، اپنے ان تمام خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے جسے ایک طویل عرصے سے کچھ سر پھرے گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے بچانے کا کہے جا رہے تھے، پر ہم تو ایسے ہی ہیں۔
اسرائیل کے منصوبوں کی کسے خبر، لیکن دنیا بھر میں اس کے جبر و تشدد اور نسل کشی کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن کس کے کان پر جوں رینگی۔ ہم میں سے اب بھی بہت سے دانشور اور ہم جیسے کم عقل پراکسی وار کے جھانسے میں آ جاتے ہیں کہ مذہب کے نام سے دور رکھنے کی بہت سی تراکیب ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہم کسی پراکسی وار کا نہیں بلکہ ایک برسوں پہلے بنے طے شدہ منصوبے کا شکار ہیں اور یہ منصوبہ دھیرے دھیرے فلسطینیوں کی لاشوں پر سے ہوتا تکمیل کے مراحل میں داخل ہے۔
گرم ترین ممالک میں ٹھنڈے محلوں میں رہنے کے عادی اب خیموں کی گرمی اور مشقت کو بھول چکے ہیں کیونکہ یہ بس ان کے بڑوں نے جھیلا تھا، انھوں نے یہ سب کہاں دیکھا تھا، لہٰذا آپشن کے طور پر وہی چنا گیا جو انھیں اپنے لیے اپنے محلات اور خاندان کے لیے بہتر لگا، لیکن کیا ایسا ہو سکا کہ اسرائیل جیسے بظاہر تندرست اور حقیقی طور پر ذہن سے چالیں چلنے اور جنگ لڑنے والے نے ایک ایسی مملکت جو ثالثی کا کردار ادا کرنے میں آگے آگے تھی، کیا ان کی ثالثی کسی کردار کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی، کسی ایک بھی بات پر عمل کروا سکی۔ یمن کے باغیوں کی بات کرتے ماتھے پر بل پڑنے والے کیا واقعی فلسطین کے کسی ایک خطے پر امن و سلامتی لا سکتے ہیں۔ کیا وہ قطر پر اسرائیل کا حملہ ناکام کرسکے۔
ہمیں تو یہی بتایا جا رہا ہے کہ اس حملے سے چار حماس کے اور ایک قطرکا سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا، لیکن حقیقت تو وہی جانتے ہیں۔نیتن یاہو اپنے ان چند شہریوں کی موت کی ذمے داری تمام فلسطینیوں پر عائد کرتے بمباری کرتے، تشدد کرتے، عورتوں، بچوں بزرگوں کو خون میں نہلا رہا ہے، بھوک اور قحط سے وہ دنیا میں اذیت اور تکلیف کی تصویر بنے ہیں، مظلومیت کی داستان رقم ہو رہی ہے۔ کون ہے ذمے دار؟ کون ہے جو ان گناہ گار ہاتھوں کی پشت پناہی کر رہا ہے سب کچھ جانتے بوجھتے ہزاروں معاہدوں پر بھی دستخط کرنے کے باوجود خود ان کی سیکیورٹی کی کیا ضمانت ہے۔ قدرت سب دیکھ رہی ہے کہ وقت ابھی منتظر ہے پردہ اٹھنے والا ہے۔ آنکھیں بند کر لو۔