WE News:
2025-11-07@02:25:37 GMT

چوکیدار  

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کو اس سے پہلے ترقی کے مواقع نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس سے پہلے کبھی ہمیں روشنی کی کرن نظر نہ آئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہمیں امت مسلمہ میں ممتاز مقام ملنے کا پہلے موقع نہیں ملا۔ یہ سب بارہا ہوا۔ لیکن ہم نے یہ مواقع گنوا دیے۔ ملک کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور تاریخ میں مقام حاصل کرنے کے بجائے ذات کو ترجیح دی اور وہ تمام مواقع گنوا دیے۔ اس دفعہ صورت حال کتنی مختلف ہے۔ پہلے کیا ہوا تھا اور اب کیا کرنا ہے؟ ماضی سے صرف اتنا پردہ اٹھانا ہے۔

 وقت بہت بیت گیا مگر ماضی کی راکھ کبھی کبھی کریدنی چاہیے تاکہ دھواں تو اٹھے، تاکہ چنگاری تو بھڑکے، اپنی غلطیوں پر ماتم تو ہو۔ اپنے اعمال کا احوال تو بیان ہو۔

یاد رکھیں وقت گزرنے سے تاریخ دفن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لگائے زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبق زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیاں زیادہ فاش نظر آنے لگتی ہیں۔ تاریخ آپ کو ذات اور وقت کے حصار سے نکال کر منظر کو دور سے رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔

بھٹو صاحب کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی۔ وہ ملک جو ابھی دو لخت ہوا تھا اس کا تشخص بحال ہوا۔ سعودی رہنما شاہ فیصل شہید نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی کو قبول فرمایا۔ مسلم ممالک کا ایک فعال بلاک بننے کی بات ہوئی۔ غربت کے اندھیرے چاک کرنے کا اعلامیہ آیا۔ ایک دوسرے کے بازو بننے کا حوصلہ ملا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ کارنامہ تھا جس سے امریکا  اور یورپ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر قسمت کا پھیر الٹا چلا۔ شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ ہماری جھولی میں اندھیرے تھے وہ اندھیرے ہی رہ گئے۔

اس کے بعد ایک موقع آیا، افغان جہاد کا۔ جہاں دو سپر طاقتوں کی جنگ تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونا تھی۔  روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ درمیان میں افغانستان اور پاکستان حائل تھے۔ ضیاالحق کا دورتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کو ہماری ضرورت تھی ۔ جب امریکا اور یورپ دست بستہ ہم سے ملتمس تھے۔  امریکا کی سلامتی کی ذمہ داری ہم کو سونپ دی گئی تھی۔

آج جو لوگ یہ  منظر دیکھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے درخواست کر رہے ہوتے ہیں انہیں شاید یاد نہ ہو کہ ہم نےا س وقت امریکی امداد کو مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔  ہم اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے روس کو شکست دینا تھی لیکن صرف روس کو شکست دینا ہمارا منصب اور مقام نہیں تھا۔ ہم نے اپنے ملک کو بھی ترقی دینا تھی۔ یہاں ڈیم بننے تھے۔ یہاں یونیورسٹیاں اور اسکول کھلنے تھے، سڑکیں تعمیر ہونا تھیں۔ ترقی ہونی تھی۔ ہم روس سے جنگ میں اس قدر غرق ہوئے کہ  ہم اپنی حالت سنوارنا بھول گئے۔ ہم نے روس کو برباد کر دیا لیکن برباد ہم خود بھی ہو گئے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے حصے میں صرف ایسا نقصان آیا جو اب بھی ہم بھر رہے ہیں۔

انیس سو اٹھانوے میں ہم  نےا یٹمی تجربات کیے ۔ بھارت کو ناکوں چنے چبو ادیے۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس خطے کا چوہدری ایک ہی ہے۔ بھارت منی سپر پاور ہے۔ لیکن اس منی سپر پاور کا چند دنوں مِں ہی بھرکس نکل گیا جب پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس واقعے کی دھاک لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارت کی برتری دنوں میں خاک میں مل گئی۔ دنیا اس واقعے پر بھی ہماری طرف بہت چاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونا تھا مگر ہم نےا س موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے والے کو قید کیا اوراندرونی خلفشار کا شکار رہے۔ دنیا جو ہم پر فخر کر رہی تھی ہم پر ہنسنے لگی ۔ ہم جو تماشا کر رہے تھے خود تماشا بن گئے۔

نائن الیون بھی ایک موقع تھا، جب دنیا کو ہماری عسکری قوت کی ضرورت پڑی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دہشتگردی کے خوف سے پاکستان نجات دے سکتا تھا۔ ہم اس وقت امریکا سے ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر ہم نے بارگینگ درست نہیں کی، ہم نے ان کے تو سارے کام کیے مگر اپنی باتیں ان سے منوانا بھول گئے۔ ایک کال پر ہم ایسے ڈھیر ہوئے کہ اس کے بعد دیر تک نہیں اٹھ سکے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ تاریخ ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔

پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے معنی اور مفاہیم بہت وسیع ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ ایک عہد ساز معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے پس منظر میں ہماری وہ کامیابی ہے جو ہم نے معرکہ حق میں حاصل کی ہے۔ اس دن سے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کی قطر میں جارحیت نے اس معاہدے کے امکانات کو مہمیز بخشی ہے۔  اب ایک بار پھر دنیا کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ اب ایک بار پھر مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔ اب ایک بار پھر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں۔ اس موقع کو پہلے مواقع کی طرح ضائع کیا تو کف افسوس ملنے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہمیں مسلم امہ کی خدمت بھی کرنی ہے، دنیا میں بھی باوقار نام بنانا ہے۔ لیکن اس کےساتھ اس ارض پاک کو بھی ترقی دینی ہے۔ یہاں سے افلاس ، بے روزگاری اور جہالت کو ختم کرنا ہے۔ اب ترقی کےسوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

تاریخ کی یہ ساعت مبارک ہے۔ یہ لمحہ عظیم ہے۔ ہم سے مسلم امہ امیدیں وابستہ کر رہی ہے۔ ہم سے دنیا ملتمس ہو رہی ہے۔ یہ وقت ماضی کے مواقع سے اس لیے مختلف ہے کہ اس وقت ہم سے نہ صرف ایٹمی قوت کے طور پر کچھ توقعات لگائی جا رہی ہیں بلکہ اس کے بدلے ہم سے حرم پاک کی حفاظت کی سعادت بھی عطا کی جا رہی ہے۔ وہ حرم پاک جہاں کا ذکر کرتے پلکیں وضو کرتی ہیں۔ ہمیں اس زمیں کی حفاظت کا ذمہ بھی مل رہا ہے اور مسلم امہ کی پاسبانی بھی تفویض کی جا رہی ہے۔

شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ یہ اعزاز انہیں نصیب ہوا کہ طیاروں کی سلامی ان کو دی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان ان کے استقبال کے لیے آئے۔ معاہدہ  فیلڈ مارشل کی معاونت میں ایک مقدس سرزمیں پرہوا۔ ایک لمحے کو سوچیں یہی حرمین شریفین تھے، یہی مقامات مقدسہ تھے۔ اور یہاں پی ٹی آئی کے لوگ تھے جنہوں نے عورتوں کو گالیاں دیں، بال کھینچے۔ جہاں ادب سے نگاہ نہیں اٹھتی وہاں سیاسی نعرے لگائے۔ سیاسی نفرت کی دکان سجائی۔

آخری بات  فوج کو لوگ نفرت میں چوکیدار کہہ کر پکارتے تھے۔ جسے چوکیدارکا الزام دیتے تھے، اسے پاسبانی کا فرض سونپ دیا گیا۔ اب یہ الزام نہیں اعزاز ہے۔ تضحیک نہیں، توقیر ہے۔ ہتک نہیں، سعادت ہے۔ اس مقام کی جہاں کی خاک کے ایک ذرے پر ساری مسلم امہ دل و جان سے قربان ہے۔ اس سے بڑھ کر سعادت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اس سے  بڑھ کر عظیم حفاظت کوئی اور نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے بعد ہوا کہ کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

افغانستان: افیون کے کھیتوں سے ’آئس‘ کی فیکٹریوں تک، منشیات کی دنیا میں نیا رخ

 

 

ایک ایسے وقت میں جب کہ خطہ افغانستان سے پھوٹنے والی دہشتگردی سے دوچار ہے، دنیا بھر کی نسل نو کا مستقبل افغان عبوری حکومت کی ناک کے نیچے کاشت کی جانے والی افیون سے کی زد میں ہے۔

????Out now

The Afghanistan Opium Survey 2025 shows a decline in cultivation, signalling a shift in regional drug production and trafficking from opium crops toward synthetic drugs.

More information: https://t.co/wfoVuQy4Ps

— UN Office on Drugs & Crime (@UNODC) November 6, 2025

افغانستان کا شمار دنیا میں افیون کاشت کرنے والے دو بڑے ممالک میں ہوتا ہے، مگر اپنے اپنے علاقوں پر قابض طالبان کمانڈر شاید فقط افیون کی پیداوار سے مطمئن نہیں اس لیے وہ ’آئس‘ جیسا شدید جان لیوا مصنوعی نشہ بھی تیار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:دنیا بھر میں پائی جانے والی افیون کا کتنا فیصد افغانستان میں اگ رہا ہے؟

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسدادِ منشیات و جرائم (UNODC) کی تازہ رپورٹ ’افغانستان اوپیئم سروے 2025‘ کے مطابق افغانستان اگرچہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں کمی کے مرحلے سے گزر رہا ہے، تاہم وہ اب بھی عالمی افیون کی پیداوار کا ایک بڑا اور مرکزی مرکز قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان، میانمار اور میکسیکو اب بھی دنیا کے 3 بڑے ممالک ہیں جہاں افیون کی کاشت عالمی سطح پر خطرے کی حد کے قریب ہے۔

افغانستان میں کاشت میں کمی مگر مرکزیت برقرار

رپورٹ کے مطابق 2025 میں افغانستان میں افیون کی کاشت 10,200 ہیکٹرز پر ریکارڈ کی گئی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہے۔ 2023 میں یہ رقبہ 10,800 ہیکٹر اور 2024 میں 12,800 ہیکٹر تھا۔

رپورٹ کے مطابق زابل، کنڑ اور تخار جیسے صوبوں میں کاشت میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ خشک سالی کے باعث ملک کے کئی حصوں میں فصلیں تباہ ہوئیں اور ممکنہ پیداوار صرف 296 ٹن تک محدود رہی۔

عالمی سطح پر افیون پیداوار کی تقسیم

اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ کے مطابق 2025 میں دنیا بھر میں افیون کی مجموعی پیداوار 2,140 ٹن رہی۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ میانمار کا تھا جو 46 فیصد یعنی 995 ٹن ہے۔

افغانستان دوسرے نمبر پر 433 ٹن (20.2%) کے ساتھ رہا، جبکہ میکسیکو میں 165.5 ٹن، لاؤس میں 60 ٹن، اور کولمبیا میں 18 ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی۔

دیہی معیشت اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افیون کی فی کلو قیمت 570 امریکی ڈالر رہی۔ اگرچہ مجموعی پیداوار میں کمی آئی، تاہم دیہی معیشت پر اس کی منفی اثرات نمایاں رہے۔ کسانوں کی آمدن میں تقریباً نصف کمی واقع ہوئی، اور فصلوں کے نقصان کے باعث متعدد علاقوں میں زمین بنجر پڑ گئی۔

مصنوعی منشیات کی بڑھتی لہر

UNODC کی رپورٹ میں ایک نیا تشویش ناک رجحان بھی سامنے آیا ہے، افغانستان میں قدرتی افیون کی جگہ مصنوعی منشیات (Synthetic Drugs)، خاص طور پر میتھ ایمفیٹامین (آئس) کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرمانہ گروہ اب آئس کی تیاری کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ زیادہ منافع بخش اور نقل و حمل میں آسان ہے۔

خطے میں بھارت کا کردار اور منشیات کی سپلائی چین

ماہرین کے مطابق افغانستان میں آئس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کا تعلق بھارت سے ہے، جو اس کے لیے ایفیڈرین (Ephedrine) فراہم کرتا ہے، یہ وہ بنیادی کیمیکل ہے جو میتھ ایمفیٹامین کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان کی پابندی کے باوجود افغانستان میں پوست کی کاشت میں کئی گنا اضافہ

رپورٹ کے مطابق اس رجحان نے خطے میں منشیات کی نئی سپلائی چین قائم کر دی ہے، جس کے اثرات وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیل سکتے ہیں۔

خشک سالی، معاشی دباؤ اور مستقبل کا خطرہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خشک سالی، پانی کی کمی اور جاری معاشی بحران نے افیون کی کاشت کو مزید محدود کر دیا ہے۔ تاہم دیہی معیشت کی تباہی اور روزگار کے مواقع کی کمی کے باعث خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بروقت متبادل ذرائع فراہم نہ کیے تو کسان دوبارہ منشیات کی کاشت کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ افغانستان اب بھی عالمی منشیات کے نقشے پر ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ مصنوعی منشیات کی تیزی سے بڑھتی پیداوار، موسمیاتی بحران اور غیر مستحکم معیشت افغانستان کے لیے نئے چیلنجز لے کر آئی ہے، جو خطے کی سلامتی، تجارت اور معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئس افغان عبوری حکومت افغانستان طالبان یو این رپورٹ

متعلقہ مضامین

  • گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ
  • دنیا کا انوکھا ریکارڈ، شخص نے سب سے طویل نام رکھ کر گنیز بک میں جگہ بنالی
  • انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟
  • یونان-البانیہ کی سرحد پر مکڑیوں کا ممکنہ دنیا کا سب سے بڑا جال دریافت
  • افغانستان: افیون کے کھیتوں سے ’آئس‘ کی فیکٹریوں تک، منشیات کی دنیا میں نیا رخ
  • دنیا کی مہنگی ترین کافی، ایک کپ کی قیمت ہوش اڑا دے
  • دنیا بھر میں سال کا سب سے بڑا سپر مون دیکھا گیا
  • آج سال کا سب سے بڑا ’سپر مون‘ ہوگا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں شاندار نظارہ
  • عقیدت ،ترکیہ میں ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا قرآنی نسخہ مکمل
  • میر واعظ عمر فاروق ایک بار پھر دنیا کی 500 بااثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست میں شامل