برطانیہ ،آسٹریلیا،کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا،کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی،نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن/غزہ/میڈرڈ/ایتھنز(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے ریاست فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ آج، امن اور دو ریاستی حل کی ا±مید کو زندہ کرنے کے لیے میں بطور وزیراعظم برطانیہ اعلان کرتا ہوں کہ برطانیہ باضابطہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکی کے سامنے ہم اس بات کے لیے قدم ا±ٹھا رہے ہیں کہ امن اور دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھا جا سکے، اس کا مطلب ہے ایک محفوظ اور پ±رامن اسرائیل کے ساتھ ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست اور فی الحال ہمارے پاس دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے دوران وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ غزہ میں انسان کا پیدا کردہ بحران نئی گہرائیوں تک پہنچ چکا ہے، ’ بھوک اور تباہی بالکل ناقابلِ برداشت ہیں۔انہوں نے کہا کہ دسیوں ہزار افراد شہید کیے جا چکے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کھانا اور پانی لینے کے لیے گئے تھے، ’یہ موت اور تباہی ہم سب کے لیے ہولناک ہے۔ان کا کہنا تھاکہ کچھ بیمار اور زخمی بچوں کو نکالا گیا ہے اور ہم نے انسانی ہمدردی کی امداد میں اضافہ کیا ہے لیکن ابھی بھی کافی امداد نہیں پہنچ رہی۔کیئراسٹارمر نے کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرحد پر عائد پابندیاں ختم کرے، ظالمانہ طریقوں کو بند کرے اور امداد کو اندر جانے دے۔قبل ازیں وزیرراعظم آسٹریلیا انتھونی البانیز اور آسٹریلوی سینیٹ میں قائد ایوان و وزیرخارجہ پینی وونگ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اتوار 21 ستمبر 2025ءسے مو¿ثر، دولتِ مشترکہ آسٹریلیا باضابطہ طور پر آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔اس اقدام کے ذریعے آسٹریلیا فلسطینی عوام کی اپنی ریاست کے قیام کی جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔فلسطین کو تسلیم کرنا، کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر، ایک مربوط بین الاقوامی کوشش کا حصہ ہے تاکہ دو ریاستی حل کے لیے ایک نیا محرک پیدا کیا جا سکے، جس کا آغاز غزہ میں جنگ بندی اور 7 اکتوبر 2023 ءکے مظالم میں لیے گئے یرغمالیوں کی رہائی سے ہو۔بیان میں کہا گیا کہ آج کا یہ قدم آسٹریلیا کے دو ریاستی حل کے طویل المدت عزم کی عکاسی کرتا ہے، جو ہمیشہ اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے لیے پائیدار امن اور سلامتی کی واحد راہ رہی ہے۔بین الاقوامی برادری نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے واضح تقاضے طے کیے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنے کے عزم کو دہرایا ہے اور آسٹریلیا کو براہِ راست یقین دہانیاں کرائی ہیں، جن میں جمہوری انتخابات کرانے اور مالیات، طرزِ حکمرانی اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں اصلاحات کرنے کے وعدے شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا جی 7 ملک بن گیا۔ وزیرِ اعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ آج سے کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔اپنے ایکس اکاو¿نٹ پر جاری کردہ بیان میں مارک کارنی نے کہاکہ کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاستِ فلسطین اور ریاست اسرائیل دونوں کے لیے پ±رامن مستقبل کے وعدے کی تعمیر میں اپنی شراکت پیش کرتا ہے۔ادھر حماس نے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے تاہم کہا کہ اسے ’ عملی اقدامات’ کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ غزہ میں جنگ ختم ہو اور اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے سے روکا جا سکے۔ حماس نے کہا کہ مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا ایک اہم قدم ہے، خودمختار فلسطینی ریاست ہماری عوام کے حقِ ملکیت کی توثیق ہے۔ اپنے بیان میں حماس ترجمان نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس ہوگا۔ برطانوی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ آج برطانیہ نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید دوبارہ اجاگرکرتے ہوئے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ کا اقدام دیگر 140 سے زائد ممالک سے مطابقت رکھتا ہے لیکن اسرائیل اور اس کے کلیدی اتحادی امریکا کے لیے ناراضی کا باعث ہوگا۔ اس کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیا اور نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مزید ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کا امکان ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے اقدامات جاری رکھیں گے۔نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی امریکا سے واپسی پر اسرائیل کی جانب سے ردعمل دیا جائے گا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل برطانیہ اور کچھ دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے یکطرفہ اعلان کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ یہ اعلان امن قائم کرنے کے بجائے خطے کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے اور مستقبل میں پرامن حل کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ اقدام مذاکرات اور دونوں فریقوں کے درمیان کسی مفاہمت کے تمام اصولوں کے منافی ہے اور مطلوبہ امن کے امکانات کو مزید کم کردے گا۔بیان کے آخر میں کہا گیا اسرائیل کسی بھی ایسے بے بنیاد اور خیالی متن کو قبول نہیں کرے گا جو اسے ناقابلِ دفاع سرحدوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرے۔قبل ازیں اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں حملوں میں تیزی آگئی، مزید 91 فلسطینی شہید ہوگئے۔قطری میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر بم باری کی جس میں بچوں سمیت متعدد فلسطینی شہید ہوئے، غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں صبح سے اب تک شہدا کی تعداد 91 سے زائد ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق چند روز میں غزہ شہر سے ساڑھے 4 لاکھ فلسطینی جبری بے دخل کر دیے گئے۔دوسری جانب حماس نے باقی رہ جانے والے 48 یرغمالیوں کی الوداعی تصویر کے نام سے گروپ فوٹو جاری کر دیا، اسرائیل کے فوجی آپریشن کی توسیع پر حماس نے یرغمالیوں کی جانیں خطرے میں ہونے سے خبردار کر دیا تھا۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کو 6 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ان کا ملک فلسطینی عوام کی مشکلات کے خاتمے اوروہاں جاری پرتشدد چکر کو روکنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ پاکستانی سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیرخارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کا مسئلہ سعودی عرب کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور ہر بین الاقوامی فورم پر مملکت اس پر اپنا مو¿قف بھرپور انداز میں پیش کرتی ہے۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب مسئلہ فسلطین کے منصفانہ حل کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائے گا، جس کا آغاز آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہوگا اور جس کا مقصد خطے میں جامع اور پائیدار امن قائم کرنا ہے۔سعودی پریس ایجنسی واس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال سعودی عرب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں امن اور انصاف کا پیغام لے کر شریک ہو رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مملکت نے اپنے بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لے کر آج تک اور موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں ہمیشہ امن کے قیام، مکالمے کو فروغ دینے اور پرامن حل تلاش کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب بدستور خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے ہر ممکن جدوجہد کر رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سعودی عرب اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے ایک ہے اور اسے 1945 میں تنظیم کے پہلے اجلاس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ سعودی عرب تنازعات کے حل اور امن کے قیام کی بھرپور تاریخ رکھتا ہے جو اس کی متوازن خارجہ پالیسی اور وسیع تعلقات کی بدولت ممکن ہوا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے منشور کو عملی شکل دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی قوانین کے احترام کو فروغ دینا ، دنیا میں سکیورٹی اور امن قائم کرنا اور کثیرالجہتی تعاون کے تمام مواقع کو تقویت دینا ہے۔مزید برآں غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں فلسطین حمایت مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق فلسطین حمایت مارچ میں شریک سیکڑوں مظاہرین نے یونانی حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔ادھر اسپین میں ہیلتھ ورکرز نے ہاتھوں پر سرخ رنگ لگا کر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل ک±شی روکنے کا مطالبہ کیا جبکہ جاپان میں بھی فلسطیی پرچم لہراتے سماجی کارکن نے ٹوکیو کی سڑکوں پر احتجاج کیا۔اسرائیل میں بھی نیتن یاہو حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، تل ابیب میں جمع ہزاروں اسرائیلیوں نے غزہ جنگ بندی معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ممالک کی جانب سے فلسطین فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے کو تسلیم کرنے بین الاقوامی کہ سعودی عرب میں کہا دو ریاستی حل ریاست تسلیم اقوام متحدہ اسرائیل کے نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے کے مطابق کرنے کا کے ساتھ کے قیام امن اور کے لیے کیا ہے امن کے ہے اور اور اس
پڑھیں:
برطانیہ، کینیڈااور آسٹریلیانے فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کرلیا۔
برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل کی امید مدھم ہو رہی ہے لیکن ہم اس چراغ کو بجھنے نہیں دے سکتے، حماس کا کوئی مستقبل نہیں، حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے بیان میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور دوریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے برطانیہ فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کررہاہے۔
یادرہے کہ برطانیہ نے جولائی میں اسرائیل کو الٹی میٹم دیا تھا کہا گر اسرائیل نے غزہ میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلے گا۔
کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کا کہنا ہے کہ آج کینیڈا فلسطین کو ایک ریاست مانتا ہے، موجودہ اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے، دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کا راستہ ہے۔ کینیڈا نے فلسطین کی حمایت انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی بنیاد پر کی۔
مارک کارنی نے کہا کہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر اور تشدد امن کے لیے خطرہ ہے، حماس کا مستقبل میں فلسطینی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانیوں پر عمل ہونے کے بعد فلسطین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے اور سفارتخانے کھولنے جیسے اقدامات پر غور کیا جائے گا۔