فلسطین کی مظلومیت، اسرائیل کا وجود خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج یہ کہنا بجا ہے کہ فلسطینیوں کی قربانی نے اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن اس وقت اس کا مقصد صرف فلسطینیوں کو دبانا نہیں، بلکہ اپنی بقا اور قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت اور شہداء کا خون عالمی سطح پر اسرائیل کی بنیادوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اور آنے والے مستقبل میں اس کے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ تحریر: ایس این سبزواری
برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا، اور آنے والے وقتوں میں دیگر ممالک بھی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ کربلا فلسطین نے ثابت کر دیا ہے کہ آخر کار خون تلوار پر غالب آ کر رہے گا۔ فلسطینیوں کی مظلومیت نے اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی مسلسل قربانیاں اور مظلومیت نے عالمی سطح پر ایک واضح اثر ڈالا ہے۔ کربلا کی طرح، فلسطین سے اٹھنے والی آواز اور ان کی فریاد نے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ طاقتور ہونے کے باوجود بھی جارحانہ اقدامات کے خلاف مظلومیت کی صدا زیادہ اثر ڈال سکتی ہے۔
آج یہ کہنا بجا ہے کہ فلسطینیوں کی قربانی نے اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن اس وقت اس کا مقصد صرف فلسطینیوں کو دبانا نہیں، بلکہ اپنی بقا اور قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت اور شہداء کا خون عالمی سطح پر اسرائیل کی بنیادوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اور آنے والے مستقبل میں اس کے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔
تاریخی حقیقت
تاریخی زاویے سے دیکھا جائے تو فلسطینیوں کی مظلومیت اور قربانیاں وہ عنصر ہیں جنہوں نے اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ اور جواز کو کمزور کیا ہے۔ فلسطینی عوام نے اپنی مظلومیت کے ذریعے عالمی توجہ حاصل کی، جس نے اسرائیل کی فوجی طاقت کے باوجود دنیا میں اس کے خلاف رائے قائم کی۔ ہر نئی جنگ اور ہر انسانی نقصان عالمی میڈیا اور عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف دلیل بنتا ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا بھی اسی مظلومیت کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔
اسرائیل کے وجود پر اثر
اسرائیل کی طاقت کا اصل ستون مغرب کی اخلاقی اور سیاسی حمایت تھی، لیکن فلسطینی مظلومیت نے اس جواز کو کمزور کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل اپنی legitimacy (قانونی و اخلاقی حیثیت) کیسے برقرار رکھے گا، نہ کہ یہ کہ فلسطین وجود میں آئے گا یا نہیں۔ بین الاقوامی عدالتیں اور مغربی پارلیمانیں اسرائیل کے خلاف کھڑی ہو چکی ہیں، اور یہ اسرائیل کی بنیادوں کو عالمی سطح پر چیلنج کر رہی ہیں۔
فلسطینی مظلومیت اور مزاحمت نے اسرائیل کے وجود پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ یہ دباؤ فوجی سطح پر نہیں، بلکہ سفارتی، اخلاقی اور قانونی سطح پر زیادہ ہے۔ اسرائیل جتنا زیادہ طاقت کے ذریعے فلسطین کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اپنی بین الاقوامی ساکھ کو کمزور کرتا ہے، اور یہی طویل المیعاد بقا کے لیے اصل چیلنج ہے۔ آج فلسطین مظلوم ہے، لیکن اس کی ریاستیت کا تصور عالمی برادری میں مضبوط ہو رہا ہے۔ اسرائیل طاقتور ہے، لیکن اس کے وجود کا اخلاقی اور قانونی جواز کمزور ہو رہا ہے، اور اصل existential crisis (وجودی بحران) اس کے لیے ہے، فلسطین کے لیے نہیں۔ بقول ساحر لدھیانوی:
خون پھر خون ہے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے وجود پر نے اسرائیل کے وجود فلسطینی عوام فلسطینیوں کی عالمی سطح پر مظلومیت اور اور قانونی کی مظلومیت اسرائیل کی فلسطین کو کر دیا ہے لیکن اس کے خلاف رہا ہے
پڑھیں:
ایک یمنی کا بے باک تجزیہ
اسلام ٹائمز: ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
جدید تاریخ میں مغرب اور عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ مفادات اور طاقت کے توازن پر مبنی رہے ہیں۔ جب بھی یہ توازن مغرب کے نقصانات کی طرف منتقل ہوا ہے، ان کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ آج مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے خطے میں برسوں کے طویل اور مہنگے تنازعات کے بعد، بڑی طاقتوں کے رویئے میں تھکاوٹ اور دوبارہ سوچنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ اسرائیل بھی اب علاقائی تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں ہے اور محفوظ فاصلے سے تبدیلیوں کی رہنمائی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کا تجزیہ قابل غور ہے۔ موجودہ سیاسی موڑ اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے مستقبل نیز یمن کے خلاف جنگ کے اثرات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں اس تجزیہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن میں انصار اللہ (حوثی) اور یمنی مسلح افواج کے مقابلے میں سعودی عرب، امارات اور قطر کو اب عسکری، سیاسی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے سے گریز کریں گے۔ وہ سابقہ تنازعات میں شکست کھا چکے ہیں اور اب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیلی فوجیں یمن کے ساتھ جنگ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان ممالک کی افواج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی خفیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یمن کے خلاف جنگ کو ایک لا حاصل جنگ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر الحوثی اپنے تجزیئے میں بتاتے ہیں کہ یہ رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ سعودی عرب کو چاہیئے کہ وہ جلد از جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور امریکہ سے بغیر کسی حمایت اور توقع کے اسے یہ اقدامات انجام دینا ہوگا۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے محمد بن سلمان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر حکومت کرنے کی خواہش ترک کر دیں اور آل سعود خاندان کو ان کی جگہ نیا حکمران منتخب کرنا چاہیئے۔
یہی بات متحدہ عرب امارات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ محمد بن زاید کو مستعفی ہونا چاہیئے اور اسے اپنا ایک جانشین انتخاب کرنا چاہیئے۔ قطر میں تمیم بن حمد کو مستعفی ہونا چاہیئے اور ایک مناسب جانشین کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ یہ اقدامات امن کے ذریعے یا عوامی انقلاب کے ذریعے انجام پانے چاہئیں۔ یمنی تجزیہ نگار کے مطابق امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی محمد بن سلمان کو اپنے مرحوم والد کی جگہ سعودی عرب کا بادشاہ تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاہ سلمان کا انتقال ایک سال سے زائد عرصہ قبل ہوا تھا، لیکن محمد بن سلمان نے اپنے خلاف بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اپنے والد کی موت کا باضابطہ اعلان کرنے اور ان کی جانشینی کے لیے شاہی فرمان جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ الحوثی کے مطابق یمنی مسلح افواج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دارالحکومتوں میں چند دنوں یا اس سے بھی کم یعنی چند گھنٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یمنی فورسز بڑی آسانی سے تیل کی تنصیبات، آرامکو، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور سعودی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کا کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی مزید لکھتے ہیں: سعودی عرب نے یمن میں جن گروہوں پر انحصار کیا ہے، جیسے کہ سیاسی قیادت کونسل، طارق افش، العرادہ اور الاصلاح پارٹی، یہ سب بدعنوان گروہ ہیں اور سعودی پیسہ ہڑپ کر رہے ہیں۔ یہ یمن کی حفاظت یا حوثی اور یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحادی بھی کرائے کی خواتین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی، برطانوی اور اسرائیلی فوجیں صنعا کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کو تیار نہیں ہیں، خاص طور پر حوثیوں کی فوجی، میزائل اور بحری صلاحیتوں میں اضافے کے بعد امریکا، برطانیہ اور حتیٰ کہ اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ اس یمنی مصنف کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ بھی صنعاء کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کے قابل نہیں ہے اور امریکی فوج، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی آمرانہ اور جابر حکومتوں کی جانب سے کوئی نئی جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔