پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے زیر اہتمام کل 7 نومبر کو کوئٹہ میں ہونے والا جلسہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ نے سیکیورٹی خدشات کے باعث جلسے کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

انتظامیہ کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے ریلوے ہاکی گراؤنڈ میں جلسے کے لیے اجازت طلب کی گئی تھی تاہم امن و امان کی صورتحال اور سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر درخواست منظور نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی جلسہ کل صوابی میں ہوگا، ٹکراؤ سے گریز کا اعلان

بلوچستان ہائیکورٹ نے بھی پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی ہے، جبکہ محکمہ داخلہ پہلے ہی دفعہ 144 کے تحت اجتماعات پر پابندی عائد کر چکا ہے۔

اس کے باوجود پی ٹی آئی کے صوبائی رہنما آصف ترین کے مطابق صوبے بھر سے کارکنان کوئٹہ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں اور تمام تیاریوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جلسہ ضرور ہوگا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات بلوچستان غفار خان کاکڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترامیم آئین کے ساتھ کھلواڑ اور عدلیہ کی آزادی پر قدغن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فارم 47 حکومت اپنی مرضی کی ترامیم کے ذریعے پارلیمانی نظام اور عوامی حقوق کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی جلسہ: علی امین گنڈا پور کی یقین دہانی، حکومتی اداروں کا رکاوٹیں ہٹانے پر غور

انہوں نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف آئین کی حفاظت کے لیے سیاسی اور عوامی سطح پر مؤثر آواز بلند کرتی رہے گی۔ انہوں نے تمام جمہوری قوتوں سے اس جدوجہد میں ساتھ دینے کی اپیل کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امن و امان انتظامیہ اجازت بلوچستان پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی جلسہ دفعہ 144 ہائی کورٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انتظامیہ اجازت بلوچستان پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی جلسہ ہائی کورٹ وی نیوز تحریک انصاف پی ٹی آئی کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج

ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات اور بارشوں میں تشویشناک کمی کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر ممکنہ خشک سالی کے خطرے کی زد میں آ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں مغربی ہواؤں کے زیر اثر معمول کے مطابق بارشوں کا امکان ہے تاہم بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں اس سال معمول سے کم بارشیں ہوں گی جس کے باعث زیر زمین پانی کی کمی اور زرعی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے وہ علاقے جہاں زیرِ زمین پانی پہلے ہی کم تھا اب خشک سالی کے مزید خطرات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔

چاغی، نوشکی، پنجگور اور گوادر جیسے اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں پانی کی کمی زراعت اور مالداری دونوں کے لیے سنگین چیلنج بن چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان کا موسمی نظام واضح طور پر بدل گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جہاں کبھی سردیوں کے آغاز پر پہاڑی سلسلوں پر برف باری اور وقت پر بارشیں ہوتی تھیں وہیں اب کئی مہینے بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

مزید پڑھیے: بارشوں اور برف باری میں کمی، کیا بلوچستان میں خشک سالی ہوسکتی ہے؟

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کے مطابق رواں برس بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1500 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس سے صوبے میں پانی کی قلت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

خالد حسین زیر زمین پانی کی کمی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق پانی کی کمی صرف زراعت ہی نہیں بلکہ روزگار اور دہی معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے اور اگر صورتحال برقرار رہی تو کسانوں کے بڑے پیمانے پر کاروبار چھوڑنے کا خدشہ ہے۔

ماہرِ ارضیات دین محمد کاکڑ نے بلوچستان میں جاری خشک سالی کو موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بارشوں کے نظام میں نمایاں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشیں اور اربن فلڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن بلوچستان مسلسل بارشوں کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: گوادر میں پانی کا بحران، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہنگامی اقدامات کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ شمالی اضلاع میں سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ پانی نکالا جا رہا ہے مگر اس کی جگہ دوبارہ بھر نہیں رہی اور ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے

انہوں نے کہا کہ کبھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں پانی کاریزوں کے ذریعے قدرتی طور پر بہتا تھا اور انہی کاریزوں نے صدیوں تک باغبانی اور فصلوں کو سہارا دیا مگر اب تقریباً تمام کاریزیں خشک ہو چکی ہیں۔

ماہر ارضیات نے کہا کہ اگر پانی کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو وہ علاقے جو کبھی کھیتی باڑی اور باغات کے لیے مشہور تھے آنے والے سالوں میں بالکل بنجر ہو جائیں گے۔

ماہرین اور کسانوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹیوب ویل کے بے تحاشہ استعمال پر پابندی اور نگرانی کی جائے اور واٹر مینجمنٹ پالیسی فوری طور پر نافذ کی جائے۔

یہ بھی پڑھیے: زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے

ماہرین کے مطابق شہریوں میں پانی کے بچاؤ کی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ بلوچستان کی زراعت اور مستقبل نسلوں کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان خشک سالی بلوچستان کی خواتین ماحولیاتی تبدیلی

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان بھر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ، تحریک انصاف کی جلسے کی اجازت مسترد
  • کوئٹہ میں سکیورٹی تھریٹ، پی ٹی آئی کے جلسے کی درخواست مسترد
  • 14نومبر کوحیدر آبا ئی پاس پرتاریخی جلسہ ہوگا‘تحریک تحفظ آئین
  • لاہور، اسموگ کے تدارک کیلئے مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیل
  • لاہور میں مارکیٹیں رات 10 اور ریسٹورنٹ 11 بجے بند کرنے کا فیصلہ
  • لاہور، مارکیٹیں رات 10 ، ریسٹورنٹ 11 بجے بند کرنے کا فیصلہ
  • پی آئی اے انجینئرز کی کام چھوڑ تحریک غیر قانونی اور نجکاری سبوتاژ کی کوشش ہے، ترجمان
  • بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
  • بلوچستان حکومت کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد