بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھارت کی موجودہ فلسطین پالیسی کو “شرمناک” اور “اخلاقی بزدلی” قرار دیا ہے۔

پریانکا گاندھی کی شدید برہمی
کانگریس کی سینئر رہنما پریانکا گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 1988 میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، لیکن گزشتہ 20 ماہ کے دوران ہماری حکومت اس بہادرانہ اور اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
انہوں نے بھارت کی حالیہ پالیسی کو “افسوسناک انحطاط” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی نہ صرف تاریخی مؤقف کی توہین ہے بلکہ انسانی حقوق سے انحراف بھی ہے۔
جے رام رمیش کی یاددہانی
کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے بھی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک اب فلسطین کو تسلیم کر رہے ہیں، جب کہ بھارت، جو 1988 میں یہ قدم اٹھا چکا تھا، آج خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے موجودہ حکومت کے مؤقف کو غیر اخلاقی اور بزدلانہ رویہ قرار دیا، اور کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو عالمی سطح پر کمزور کر دیا ہے۔
مودی حکومت کی خاموشی پر سوالات
یاد رہے کہ کانگریس نے گزشتہ ماہ بھی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب وہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر خاموش رہی۔
پریانکا گاندھی نے اُس وقت بھی اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا اور بھارتی حکومت کی خاموشی کو مجرمانہ غفلت قرار دیا تھا۔
فلمی حلقے بھی بول پڑے
سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ فنکار برادری بھی اس موضوع پر آواز بلند کر رہی ہے۔ معروف بھارتی اداکار پراکاش راج نے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا اور بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی فلسطین میں جاری انسانی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
پس منظر میں تاریخی مؤقف
بھارت نے 18 نومبر 1988 کو سرکاری طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ یہ قدم اس وقت دنیا بھر میں نظریاتی ہم آہنگی اور اصولی مؤقف کے طور پر سراہا گیا تھا۔
لیکن آج، بھارت کی خاموشی اور دوغلی پالیسی پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بھارت کی

پڑھیں:

3 مزید بجلی گھروں کو نجکاری فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد:

حکومت نے 3 مزید بجلی گھروں کو اپنی نجکاری فہرست میں دوبارہ شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جن میں جامشورو پاور پلانٹ اور دو ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھر شامل ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بتایا کہ یہ ادارے پہلے مختلف وجوہات کے باعث فہرست سے نکال دیے گئے تھے، تاہم اب ان کی نجکاری دوبارہ عمل میں لانے کافیصلہ کیا گیا ہے۔

مشیر برائے نجکاری  محمد علی نجکاری کے عمل سے متعلق مشاورتی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جس میں دس تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری پر غورکیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ بجلی کے شعبے کو سالانہ تقریباً 1.2 ٹریلین روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے جو قیمتوں کے فرق، قرضوں کی ادائیگی اور بجلی چوری جیسے نقصانات کو پوراکرنے کیلیے ہے۔

انہوں نے خبردارکیا کہ اگر تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری نہ کی گئی تو ملک کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ اگرچہ نجکاری سے کارکردگی میں بہتری کی توقع ہے، تاہم یکساں ٹیرف اور سبسڈی جیسے پالیسی اقدامات بدستور برقرار رہیں گے۔

مالی مشیرکے مطابق یکساں ٹیرف پالیسی سماجی و اقتصادی ضرورت ہے اور حکومت اسے جاری رکھنے کے حق میں ہے۔ 

پالیسی کے تحت کم کارکردگی والے علاقوں کے صارفین بھی وہی نرخ اداکرتے ہیں، جو زیادہ مؤثرکمپنیوں کے صارفین پر لاگو ہوتے ہیں،جس کے باعث پنجاب کے صارفین بالواسطہ طور پر سندھ اور بلوچستان کے صارفین کو سبسڈی فراہم کرتے ہیں۔

حکومت نے ابتدائی طور پر اسلام آباد (IESCO) فیصل آباد (FESCO) اور گوجرانوالہ (GEPCO) کی نجکاری کیلیے بین الاقوامی مالیاتی مشیرکمپنی "ایلویریس اینڈ مارسال" کو تعینات کیا ہے۔

مشیرکے مطابق ابتدائی مارکیٹ جائزہ مکمل کر لیاگیااور ٹرانزیکشن اسٹرکچر جلدحتمی شکل اختیارکرے گا، جبکہ آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاروں سے اظہارِ دلچسپی کی درخواستیں طلب کی جائیں گی۔

سابق چیئرمین نیپرا توقیر فاروقی نے امیدظاہرکی کہ نجکاری کے عمل میں ملازمین کی جانب سے مزاحمت کاسامنانہیں ہوگا، کیونکہ بجلی کے شعبے میں یونین سرگرمیوں پر صدارتی آرڈیننس کے تحت پابندی عائد ہے۔

ایم ڈی  پاور پلاننگ اینڈمانیٹرنگ کمپنی عابد لطیفکے مطابق تمام شرائط پوری کر لی گئی ہیں، ورلڈ بینک نے تجویز دی کہ نجکاری سے قبل تمام 10 تقسیم کارکمپنیوں کے شیئرز صدرِ پاکستان کے نام منتقل کیے جائیں اور حکومت نئی بجلی پالیسی بھی مرتب کرے،تاکہ تقسیم کار ادارے تکنیکی و مالی نقصانات میں کمی لاسکیں۔

خیال رہے کہ کابینہ نے گزشتہ سال اگست میں تین تقسیم کارکمپنیوں کی نجکاری کی منظوری دی تھی، تاہم ابھی تک کسی بڑی سرکاری کمپنی کی نجکاری مسابقتی بولی کے ذریعے نہیں ہو سکی۔

متعلقہ مضامین

  • نریندر مودی 10 ہزار روپے دیکر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کانگریس
  • بھارت کی پسماندہ ترین ریاست بہار میں آج انتخابات کا پہلا مرحلہ
  • ظہران ممدانی کی نریندر مودی پر کڑی تنقید، پرانی ویڈیو وائرل
  • 5جی اسپیکٹرم پالیسی کب لائی جائے گی؟ حکومت نے بڑا اعلان کردیا
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی اورافغانستان
  • بھارت میں برازیلی ماڈل 22 مختلف ناموں کیساتھ ووٹر لسٹ میں شامل
  • راہل گاندھی نے مودی حکومت کی ووٹ چوری پھر پکڑ لی
  • ہریانہ انتخابات: برازیلی ماڈل کے متعدد ووٹس، راہول گاندھی نے مودی حکومت کی دھاندلی کا پردہ فاش کردیا
  • امریکا: تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن، ڈیموکریٹس کے مطالبات اور ٹرمپ کی ہٹ دھرمی برقرار
  • 3 مزید بجلی گھروں کو نجکاری فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ