سیلاب کے باعث فیصل آباد، خانیوال سیکشن بند، متبادل روٹ پر اضافی ڈیزل استعمال
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
ترجمان ریلوے نے بتایا کہ فیصل آباد سے خانیوال روٹ سیلاب کے باعث بند ہوا ہے، رواں ہفتے ہی اس ٹریک کو بحال کردیا جایے گا، اس روٹ پر چلنے والی ٹرینیں لاہور سے براستہ رائیونڈ، ساہیوال جارہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سیلاب کے باعث فیصل آباد، خانیوال سیکشن تاحال بند ہے، متبادل روٹ پر ٹرینیں چلانے کے لیے اضافی ڈیزل استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان ریلویز نے مسافروں کی تعداد میں کمی کے باعث آج 2 ٹرینیں شاہ حسین اور پاک بزنس ایکسپریس منسوخ کردیں، پشاور سے کراچی جانے والی ٹرینوں کو متبادل روٹ سے منزل مقصود تک پہنچایا جارہا ہے۔ پاکستان ایکسپریس، ملت ایکسپریس، رحمان بابا اور ہزارہ متبادل روٹ لاہور ساہیوال سے کراچی جارہی ہیں، لاہور سے قراقرم، شاہ حسین ایکسپریس ،شالیمار کو بھی براستہ رائیونڈ ،ساہیوال چلایا جارہا ہے۔
فیصل آباد براستہ ٹوبہ، خانیوال جانے والی تمام مال بردار گاڑیوں کو بھی متبادل روٹ سے چلایا جارہا ہے، متبادل روٹ کے باعث روزانہ کی بنیاد پر اضافی ڈیزل کی مد میں لاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ متبادل روٹ کے باعث ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے، روزانہ کی بنیاد پر کراچی جانے والی ایک سے 2 ٹرینیں منسوخ کی جارہی ہیں۔ ترجمان ریلوے نے بتایا کہ فیصل آباد سے خانیوال روٹ سیلاب کے باعث بند ہوا ہے، رواں ہفتے ہی اس ٹریک کو بحال کردیا جایے گا، اس روٹ پر چلنے والی ٹرینیں لاہور سے براستہ رائیونڈ، ساہیوال جارہی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سیلاب کے باعث متبادل روٹ فیصل آباد جارہی ہیں روٹ پر
پڑھیں:
ہر 15 سال بعد تباہ کن سیلاب یا خشک سالی؟ پاکستان کے لیے مصنوعی ذہانت کی چونکا دینے والی پیش گوئی
پاکستان کے مستقبل سے متعلق ایک نئی سائنسی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جنوبی کوریا کی پوسٹیک یونیورسٹی (Pohang University of Science and Technology) کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان آئندہ برسوں میں باقاعدگی سے “سپر فلڈز” یعنی شدید سیلاب اور سنگین خشک سالی کا سامنا کرے گا — اور یہ سلسلہ تقریباً ہر 15 سال بعد دہرایا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف بین الاقوامی سائنسی جریدے Environmental Research Letters میں شائع ہوئی ہے، جس کی قیادت پروفیسر جونگہُن کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اس تحقیق میں پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم حسن رضا، اور چین کی سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر داگانگ وانگ اور ان کی ٹیم بھی شامل ہے۔
پاکستان تحقیق کا مرکز کیوں؟
تحقیقی ٹیم نے پاکستان پر فوکس اس لیے کیا کیونکہ یہاں کی بقاء بڑی حد تک دریاؤں، خصوصاً دریائے سندھ پر منحصر ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے ان دریاؤں کے بہاؤ کو غیر یقینی بنا دیا ہے، جس کے باعث پانی کی مؤثر منصوبہ بندی اور انتظامی حکمتِ عملی ایک چیلنج بن چکی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، جو گلوبل ساؤتھ کا حصہ ہیں، نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار معاشی اور تکنیکی وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے موسمیاتی پیش گوئیوں میں انقلاب
اس تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ ماہرین نے روایتی موسمی ماڈلز پر انحصار کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیا۔ عام ماڈلز پہاڑی علاقوں، جیسے گلگت بلتستان یا شمالی خیبرپختونخوا میں بارش اور دریا کے بہاؤ کی درست پیش گوئی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ AI کی مدد سے ماہرین نے دریا کے ماضی کے ڈیٹا اور زمینی مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے ایسے موسمیاتی رجحانات دریافت کیے جو پہلے چھپے ہوئے تھے۔
نتائج کے مطابق بالائی دریائے سندھ میں ہر 15 سال کے لگ بھگ ایک بڑا سیلاب یا خشک سالی متوقع ہے۔
دیگر قریبی دریا تقریباً 11 سال کے وقفے سے ایسے ہی شدید موسمی حالات کا سامنا کریں گے۔
حکومت کے لیے ایک واضح انتباہ
یہ تحقیق پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے:
تمام دریاؤں کے لیے ایک جیسی حکمت عملی کارگر نہیں۔ ہر دریا کی بنیاد پر الگ، سائنسی اور مقامی حالات کے مطابق منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
پروفیسر جونگہُن کام کا کہنا ہے کہ یہ نئی AI ٹیکنالوجی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان خطوں کے لیے بھی مفید ہے جو موسمیاتی لحاظ سے کمزور اور ڈیٹا کے فقدان کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو AI موسمیاتی خطرات سے نمٹنے میں انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے۔