سپریم کورٹ، 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
سپریم کورٹ، 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر WhatsAppFacebookTwitter 0 23 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں 7 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں۔سپریم کورٹ نے 26 آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں 7 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، جس کی سربراہی آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کریں گے۔جسٹس امین الدین خان سربراہی میں 8 رکنی بینچ سماعت 7 اکتوبر کو ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپنجاب سے آٹے اور گندم کی بندش، خیبرپختونخوا حکومت کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ پنجاب سے آٹے اور گندم کی بندش، خیبرپختونخوا حکومت کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو ازدواجی تعلقات کے لیے سہولت فراہم کرنے کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل کا انڈونیشیا میں اسٹریٹیجک توسیع کا آغاز غیر متنازعہ فیصلوں کیلئے مشہور دنیائے کرکٹ کے لیجنڈری امپائر ڈکی برڈ انتقال کر گئے بی آئی ایس پی کو فراڈ کہنے والوں کو معافی مانگنی چاییے، نام کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا:سینیٹر روبینہ خالدCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ
پڑھیں:
مجوزہ آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت کی مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک اہم آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جمع کروائی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالتی جائزے کا اختیار آئین کا بنیادی ستون ہے اور اسے کسی بھی ترمیم یا متوازی نظام کے ذریعے محدود نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں یہ مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی صورت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنے آئینی دائرہ کار میں مداخلت کے کئی معاملات سننے سے محروم ہو جائیں گی، جو نہ صرف آئین کی روح کے منافی ہے بلکہ عدلیہ کی خودمختاری کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) اور آرٹیکل 199، دونوں ہی عدلیہ کو عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی طور پر اختیار دیتے ہیں۔ ان میں مداخلت یا ان کی جگہ کوئی متوازی نظام قائم کرنا بنیادی آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ اختیار کو کسی بھی ممکنہ ترمیمی اقدام سے محفوظ بنائے۔
درخواست میں یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ اگر حکومت یہ ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی تو عدالتی نظام مفلوج ہو جائے گا اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا واحد فورم ، یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ، غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
درخواست گزار کے مطابق عدالتی اختیار کا تحفظ نہ صرف ملکی آئین کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ عالمی جمہوری اصولوں کے عین مطابق بھی ہے۔ اسی لیے درخواست میں مختلف بین الاقوامی عدالتی فیصلوں کی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ریاست میں عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بالادستی کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔
بیرسٹر علی طاہر نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے دیگر حصے بعد میں بھی زیرِ جائزہ لائے جا سکتے ہیں، مگر فی الوقت اعلیٰ عدلیہ کے آئینی اختیارات کے تحفظ کے لیے فوری فیصلہ ضروری ہے تاکہ کوئی ترمیم عدلیہ کے دائرہ کار کو متاثر نہ کر سکے۔