سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کیس کی سماعت کل تک ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل (بدھ) تک ملتوی کر دی۔ ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل احمد جمال سکھیرا کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:سپر ٹیکس کیس: پورے ملک سے پیسہ اکٹھا کرکے ایک مخصوص علاقے میں کیوں خرچ کیا جائے، جسٹس جمال مندوخیل
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل احمد جمال سکھیرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کی روشنی میں فیصلہ دیا جائے تو کیا ہوگا؟، جس پر سکھیرا نے مؤقف اپنایا کہ 215 ارب روپے کا اضافی بوجھ ٹیکس دہندگان پر ڈالنا درست نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ٹیکس ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ٹیکس ریکوری ہو جاتی تو یہ اضافی ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
وکیل احمد جمال سکھیرا نے مؤقف اختیار کیا کہ 15 کروڑ روپے سے کم آمدنی پر سپر ٹیکس لگانا غیر قانونی ہے۔ میری استدعا ہے کہ جس ٹیکس سلیب میں کوئی آتا ہے اسی کے مطابق ٹیکس لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مطابق 15 کروڑ سے کم آمدنی پر سپر ٹیکس نہیں لگ سکتا، جبکہ اس سے زائد آمدنی پر لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: ایف بی آر کے وکیل کی استدعا پر سپر ٹیکس کیس کی سماعت 5 مئی تک ملتوی
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر مؤقف دیا کہ سکھیرا صاحب دراصل یہ چاہ رہے ہیں کہ تنخواہ دار طبقہ بھی وہی ٹیکس دے جو یہ کمپنیاں دے رہی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ موجودہ مؤقف کے مطابق تو تنخواہ دار طبقہ بھی سپر ٹیکس کے دائرے میں آ سکتا ہے۔
عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایڈیشنل اٹارنی جنرل جسٹس جمال مندوخیل سپر ٹیکس سپریمکورٹ وکیل احمد جمال سکھیرا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایڈیشنل اٹارنی جنرل جسٹس جمال مندوخیل سپر ٹیکس سپریمکورٹ جسٹس جمال مندوخیل سپر ٹیکس تک ملتوی
پڑھیں:
کشمیری قیدیوں کی واپسی پر محبوبہ مفتی کی عدالت میں عرضی دائر
پی ڈی پی کی سربراہ کیجانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر نے سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کی اس عوامی مفاد عرضی (پی آئی ایل) پر سوال اٹھایا ہے جس میں انہوں نے ریاست کے زیر سماعت قیدیوں کو بیرون جموں و کشمیر جیلوں سے واپس لانے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس ارون پالی اور جسٹس راج نیش اوسوال پر مشتمل بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت کو پہلے درخواست گزار کی لوکس اسٹینڈی (قانونی جواز یا ذاتی حیثیت) پر مطمئن ہونا ہوگا۔ عدالت نے محبوبہ مفتی کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کو اس معاملے میں کیا نقصان پہنچا ہے اور یہ پی آئی ایل دراصل کس مقصد کے لئے ہے۔
محبوبہ مفتی کی جانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے ان قیدیوں کے اہلِ خانہ اور وکلاء کے لئے قانونی مشاورت اور ملاقاتیں نہایت مشکل ہوگئی ہیں۔ وکیل نے دلیل دی کہ اکثر قیدی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے لئے دور دراز سفر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ عدالتی کارروائی خود ان کے لئے سزا بن گئی ہے۔ تاہم عدالت نے ریمارکس دئے کہ اس سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ درخواست واقعی قابل سماعت ہے اور کیا محبوبہ مفتی بطور عرضی گزار اس کے لئے قانونی طور پر اہل ہیں۔
سماعت کے دوران بنچ نے ریکارڈ میں درج کیا کہ محبوبہ مفتی کے وکیل نے مزید تیاری کے لئے وقت طلب کیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے بحث کے دوران مزید تیاری اور دلائل کے لئے وقت مانگا ہے۔ یہ معاملہ اب 18 نومبر کو آئندہ سماعت کے لئے درج کر لیا گیا ہے۔ اپنی درخواست میں محبوبہ مفتی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت ان کے بنیادی حقوق، مساوات اور حق زندگی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ماڈل پریزن مینوئل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکومت پر انسانی اور آئینی، دونوں بنیادوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے قریب اور متعلقہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں رکھا جائے۔