بحریہ ٹائون کی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ شرجیل و دیگر کیخلاف معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجنے کاحکم
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ میںبحریہ ٹائون کراچی کی اراضی کی الاٹمنٹ اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ریفرنس‘سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر شرجیل میمن و دیگر کی ریفرنس سے نام خارج کرنے کی درخواست‘ سندھ ہائیکورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ریفرنس میں ملزمان کی 15 روز کے لیے حفاظتی ضمانت بھی دے دی۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ تین رکنی آئینی بینچ نے قرار دیا تھا کہ معاملہ ریگولر بینچ سنے گا، ٹرائل کورٹ میں نقول فراہم ہو چکے ہیں، ہم اس ریفرنس میں ضمانت نے بریت چاہتے ہیں، عدالت کاکہنا تھا کہ یہ دائر اختیار ٹرائل کورٹ کا ہے کہ آپ ریفرنس سے خارج کرے یا نہیں، معاملہ ٹرائل کورٹ بھیج رہے ہیں، ٹرائل کورٹ ہے درخواست پر فیصلہ کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹرائل کورٹ
پڑھیں:
ملٹری ٹرائل ، حکومت اور پارلیمان آزاد نہ اپیل کیلئے 45روز میں قانون شازی کریں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ عدالت نے حکومت اور پارلیمان کو آزادانہ اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی کا حکم دیا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزموں کو اپیل کا حق دینے کا حکم دیا جبکہ حکومت سے 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔ آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں۔ حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی سے مداخلت کی ضرورت ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں۔ ملٹری ٹرائل میں بھی مگر آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیے۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں۔ آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجودکی نفی نہیں کرتا۔ جبکہ پانچ رکنی بنچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی۔ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا۔ پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے، عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ جبکہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل‘ جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دیدی تھی۔