کشادہ دروازے اور شتر بان
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث ہمیشہ بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش ہو یا امریکا کا افغانستان میں طالبان کو بزورِ طاقت زیر کرنے کا منصوبہ ، ہر دونوں صورتوں میں پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بنیادی حیثیت رکھتا رہا ہے۔
روس کی گرم پانیوں تک رسائی کے خواب کو چکنا چور کرنے والے دراصل پاکستانی اذہان ہی تھے جنھوں نے اپنی سلامتی کو مقدم رکھا۔ ادھر امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئر بیس واپس لینا چاہتے ہیں تاکہ خطے میں اپنی موجودگی قائم رکھتے ہوئے چین پر کڑی نظر رکھ سکیں۔ افغانستان نے بگرام ائر بیس امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔دیکھتے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے۔
چین بلا شبہ آج دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آچکا ہے جس نے عالمی معیشتوں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ پاکستان اور چین کے دیرینہ برادرانہ تعلقات کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مشہور زمانہ ’چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری ‘منصوبہ اب تکمیل کے قریب ہے۔
یہ راہداری نہ صرف چین کے لیے گرم پانیوں کے دروازے کھولے گی بلکہ اس کی مصنوعات کم وقت اور کم لاگت کے ساتھ دنیا بھر تک پہنچ سکیں گی۔ ساتھ ہی یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کی مضبوطی میں بھی سنگِ میل ثابت ہوگا۔ گوادر کی بندرگاہ اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ چین کے تعاون سے مکمل ہوچکے ہیں، اب صرف ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی میں بھارتی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئے روز فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد اور ان کی شناخت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان کی صورتحال بگاڑ کر چین کی تجارت کو متاثر کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔پاکستان کا یہ منفرد محلِ وقوع جہاں ایک طرف ہمارے لیے عظیم امکانات کا دروازہ کھولتا ہے، وہیں ہمیں دشمنوں کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ بلوچستان کی صورتِ حال اس کی زندہ مثال ہے۔
امریکا کی افغانستان میں دوبارہ قدم جمانے کی خواہش پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کی موثر سفارت کاری سے یہ معاہدہ ممکن ہوا ، اگر چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند ہے تو سعودی عرب کے ساتھ ہمارا تعلق اسلام کے انمٹ رشتے سے جڑا ہے جسے کوئی طاقت جدا نہیں کرسکتی۔مجھے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے دنیا کو ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں جشن منایا گیا تھا۔
سعودی عرب اگرچہ دنیا کے کئی ملکوںخصوصاً امریکا اور بھارت میں سرمایہ کاری رکھتا ہے مگر اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس نے پاکستان کو ترجیح دی ہے۔ سعودی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس موجود امریکی اسلحہ اور دفاعی نظام دراصل ایک مفلوج ڈھانچہ ہے جو امریکی مرضی کے بغیر حرکت میں نہیں آ سکتا۔ اس کی ایک جھلک ہم نے حال ہی میں دیکھی جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا۔ قطر کے پاس جدید ترین دفاعی نظام موجود تھا لیکن وہ نظام حرکت میں نہ آ سکا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ یقیناً دور رس نتائج کا حامل ہے۔ امریکا اس کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، اس کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیںتاہم امریکی اپنی مفاد پرستی اور موقع شناسی کے لیے مشہور ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو کس طرح ہضم کرتے ہیں اور سعودی عرب کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس موقع پر مجھے اپنے علاقے کی ایک کہاوت یاد آگئی ۔ ہماری وادیِ سون چونکہ پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے، اس لیے وہاں باربرداری کے لیے اونٹوں کا استعمال عام تھا۔ میرے بچپن میں گندم اور دوسری اجناس کھیتوں سے گھروں تک پہنچانے کے لیے ٹریکٹر یا جدید ذرایع موجود نہ تھے، اس لیے اونٹ ہی سہارا تھے۔ آج بھی پہاڑی چوٹیوں سے باربرداری کے لیے اونٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
گاؤں میں چند گھرانے اونٹ پالتے تھے اور انھی کے ذریعے روزی کماتے۔ فصل کی کٹائی کے بعد وہ خود ہی اجناس اونٹوں پر لاد کر ہمارے گھر تک پہنچاتے۔ ہمارے گھر کی ڈیوڑھی کے دروازے اتنے کشادہ اور بلند تھے کہ اونٹ بھری ہوئی بوریاں لے کر اندر داخل ہو جاتے اور صحن میں بیٹھ کر سامان اتارتے، پھر واپس چلے جاتے۔اس لیے ایک کہاوت آج بھی زبان زدِ عام ہے ’’اگر اونٹ والوں سے دوستی رکھنی ہو تو دروازے کشادہ رکھنے چاہئیں‘‘۔
آج ہم نے عرب کے شتر بانوں سے اپنی دوستی مزید مضبوط کر لی ہے۔ دعا کیجیے کہ یہ دوستی ہمیشہ قائم رہے اور کسی کی نظر نہ لگے۔ ہمارے دروازے کشادہ رہیں تاکہ دوستوں کی سواریاں ہمارے دالانوں میں بلارکاوٹ آتی جاتی رہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ عرب کے کے لیے چین کے
پڑھیں:
سعودی عرب: ہنرمندوں کے لیے ورک پرمٹ نظام متعارف
سعودی عرب نے غیر ملکی ملازمین کے لیے ہنر پر مبنی ورک پرمٹ نظام (اسکل بیسڈ ورک پرمٹ) متعارف کر دیا ہے جس کا مقصد عالمی سطح کے ہنرمند افراد کو مملکت کی افرادی قوت کا حصہ بنانا اور لیبر مارکیٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت طلبہ کو اے آئی تربیت کے لیے سعودی عرب بھجوائے گی، وزیراعظم کا اعلان
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یہ فیصلہ سعودی وزیرِ افرادی قوت و سماجی ترقی احمد بن سلیمان الراجحی کے حکم پر جاری کیا گیا۔
نئے نظام کے تحت غیر ملکی کارکنوں کو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ہائی اسکل ، اسکلڈ اور بیسک کٹیگریز شامل ہیں۔
یہ درجہ بندی ملازمین کی تعلیمی قابلیت، تجربے، فنی مہارت، اجرت کی سطح اور عمر کی بنیاد پر کی جائے گی۔
نئے آنے والے کارکنوں پر یہ نظام یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہے جبکہ پہلے سے موجود تارکین وطن کی از سرِ نو درجہ بندی 18 جون سے شروع ہو چکی ہے۔
یہ اقدام مملکت میں جاری گیگا پروجیکٹس جیسے نیوم، ریڈ سی پروجیکٹ، القدیہ اور دریہ گیٹ کے لیے درکار ہنرمند افرادی قوت کی فراہمی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
ان منصوبوں میں تعمیرات، ٹیکنالوجی، سیاحت اور ڈیزائن سمیت کئی شعبوں میں عالمی معیار کے ماہرین کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب کا حج ویزا کے بغیر مکہ شہر میں داخلے پر پابندی کا فیصلہ
وزارت کے مطابق اس اقدام کا مقصد ہے کہ کارکنوں کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے، عالمی ماہرین کو سعودی مارکیٹ میں اپنی مہارت منتقل کرنے کے لیے متوجہ کیا جائے، آپریشنل کارکردگی میں اضافہ ہو اور جدت و اختراعات کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔
نیا نظام قویٰ پلیٹ فارم کے ذریعے نافذ کیا جائے گا جہاں ایک ڈیجیٹل تشخیصی نظام کے تحت کارکنوں کی قابلیت کو سعودی پیشہ جاتی و تعلیمی درجہ بندی کے مطابق جانچا جائے گا۔
اس اصلاح سے نہ صرف لیبر مارکیٹ میں شفافیت بڑھے گی بلکہ کم ہنر والے مزدوروں پر انحصار بتدریج کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی بیروزگاری کی شرح کم ہو کر 2.8 فیصد رہ گئی جب کہ غیر سعودی کارکنوں میں یہ شرح صرف 0.8 فیصد رہی جو نجی شعبے میں مضبوط طلب کو ظاہر کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کو انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سپریم آڈٹ انسٹی ٹیوشنز کی صدارت مل گئی
غیر ملکی کارکن اب بھی مملکت کی افرادی قوت کا اہم حصہ ہیں جو 1.57 کروڑ افراد (کل آبادی کا 44.4 فیصد) پر مشتمل ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 89.9 فیصد غیر سعودی 15 سے 64 سال کی کارآمد عمر کے زمرے میں آتے ہیں۔
یہ نیا نظام پروفیشنل ویری فکیشن پروگرام سے بھی منسلک ہے جو سنہ 2021 میں شروع ہوا اور سنہ 2024 میں 128 ممالک تک پھیلایا گیا جبکہ جلد ہی 160 ممالک تک وسعت دی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت مملکت میں داخلے سے قبل انجینئرنگ، صحت، اور تعلیم کے شعبوں میں غیر ملکی کارکنوں کے تعلیمی و پیشہ ورانہ اسناد کی تصدیق کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں عمرہ ویزا کے نئے ضوابط آئندہ ہفتے نافذ ہوں گے
اسی دوران سعودی عرب نے ترسیلات زر پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ صرف فروری 2025 میں غیر ملکی کارکنوں کی ترسیلات 12.78 ارب ریال (3.41 ارب ڈالر) تک پہنچ گئیں جو ملکی معیشت میں ان کے اہم کردار کو ظاہر کرتی ہیں۔
وزارت نے آجرین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے عملے کی درجہ بندی قویٰ پلیٹ فارم کے ذریعے مکمل کریں۔ کارکنان اگر اعلیٰ زمرے کے معیار پر پورا اترتے ہیں تو وہ دوبارہ جانچ کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں یورپی سینما کا میلہ، ثقافتی تبادلے کا نیا باب
وزارت کے مطابق ورک پرمٹ درجہ بندی کے نظام سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے کتابچہ وزارت کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس میں عملدرآمد، ضوابط، اور تشخیصی طریقہ کار کی تفصیلات شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سعودی عرب سعودی عرب میں ورک پرمٹ سعودی ورک پرمٹ سعودی ورک ویزا سعودی ویزا عالمی ہنرمند