برطانیہ کیلیے براہ راست پروازیں:پی آئی اے لائسنس لینے میں ناکام
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان سے برطانیہ کے لیے براہ راست پروازیں شروع کرنے حوالے سے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) ٹی سی او لائسنس حاصل کرنے میں ناکام رہی جبکہ نجی ائرلائن کو لائسنس جاری کردیا گیا۔ پاکستان سے برطانیہ کے لیے براہ راست پروازیں شروع کرنے کے معاملہ پر برطانوی محکمے ڈی ایف ٹی نے نجی ائرلائن ائربلیو کو تھرڈ کنٹری آپریشن لائسنس جاری کر دیا ہے۔پی آئی اے کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ قومی ائرلائن پی آئی اے ٹی سی او لائسنس حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ قومی ائر لائن پی آئی اے کو جہازوں کی کمی کا سامنا ہے جبکہ ائربلیوکے ائربس 320 طیارے ترکیہ میں ری فیولنگ کے بعد برطانیہ جائیں گے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ برطانیہ کے لیے ائربس کے 320 اور321 طیارے استعمال کیے جائیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے
پڑھیں:
محکمہ فنانس پنجاب کے 466 ارب روپے ریکور کرنے میں ناکام
محکمہ فنانس پنجاب کے 466 ارب روپے ریکور کرنے میں ناکام ہوگیا۔ آڈٹ رپورٹ 2024-25 نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ کو اربوں کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ آڈٹ 2023-24 میں بھاری مالی بے ضابطگیاں سامنے آ گئیں۔ حکومتی اداروں اور کمپنیوں سے واجبات کی ریکوری نہ ہو سکی۔ ڈسکوز نے 82 ارب روپے بجلی ڈیوٹی کی ادائیگی نہیں کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف اداروں کو اضافی ٹرانسفر کی مد میں 177 ارب روپے کی عدم ریکوری کا سامنا ہے۔ کمرشل بینکوں میں 44 ارب روپے کے سرکاری فنڈز پڑے رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح اداروں کو دیے گئے قرض میں 2.4 ارب روپے کی ریکوری نہ ہو سکی۔ مختلف کمپنیوں کو دیے گئے 68 ارب روپے قرض کی عدم ریکوری کا انکشاف ہوا ہے۔ قادرآباد کوئلہ پاور پراجیکٹ کے لیے 1 ارب روپے سے زائد رقم و سود وصول نہ ہو سکا۔ مالیاتی کنٹرولز کمزور ہونے کے باعث صوبائی خزانہ دباؤ کا شکار ہے۔ 30 جنوری 2025 کی DAC میٹنگ میں اعتراضات پر تسلی بخش جواب نہ دیا گیا۔ رپورٹ میں منافع سمیت تمام رقوم فوری خزانے میں جمع کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ذمہ داران کے تعین اور کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بے ضابطگیوں کی بار بار نشاندہی کے باوجود تکرار سنگین معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلی آڈٹ رپورٹس میں بھی 97 ارب اور 656 ارب روپے کی ایسی ہی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔