کارگل جنگ میں بھی کھلاڑی ہاتھ ملا رہے تھے تو اب ایسا کیوں ہے؟ سابق بھارتی وزیربھی بول پڑے WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز

نئی دہلی (آئی پی ایس )بھارتی کانگریس رہنما او سابق وزیر ششی تھرور نے ایشیا کپ میں پاک بھارت میچز میں ہینڈ شیک تنازع پر گفتگو کرتے ہوئے کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا مشورہ دے دیا۔ششی تھرور نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 1999 میں کارگل جنگ ہورہی تھی سپاہی مر رہے تھے، تب بھی ہم نے انگلینڈ میں ورلڈکپ میں پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملائے تھے تو اب ایسا کیوں ہے؟

انہوں نے کہا کہ اگر ہم پاکستان کے بارے میں اتنا شدت سے محسوس کرتے ہیں تو ہمیں کھیلنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر ہم کھیل رہے ہیں تو ہمیں کھیل کے جذبے سے کھیلنا چاہیے، ان سے ہاتھ ملانا چاہیے۔ششی تھرور کا کہنا تھا کہ کھیل کا جذبہ اس سے مختلف ہے جو ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ ایشیا کپ میں 14 ستمبر کو گروپ میچ میں بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے ٹاس کے موقع پر پاکستانی کپتان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا جبکہ میچ کے اختتام پر بھی بھارتی ٹیم نے گرین شرٹس سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا تھا جس کے بعد تنازع کھڑا ہوا تھا۔ یہی نہیں 21 ستمبر کو سپر فور مرحلے میں بھی پاک بھارت میچ میں بھارتی کپتان نے پاکستانی کپتان اور میچ کے بعد کھلاڑیوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایشیا کپ: بنگلادیش کا پاکستان کیخلاف اہم میچ میں ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ ایشیا کپ: بنگلادیش کا پاکستان کیخلاف اہم میچ میں ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ موجوہ نظام کو ہائبرڈ یا ون پیج سے منسوب کرنا غلط ہے: رانا ثنا اللہ بحرین کی جانب سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے بڑا ریلیف پیکج طالبان نے خواتین پر مرد ڈینٹسٹ سے علاج کرانے پر پابندی عائد کردی سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،کاپی سب نیوز پر پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں:مریم نواز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں اور حکومتی اقدامات کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اگرچہ کچھ کیسز میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن ملزمان کی رہائی کے واقعات انصاف کے نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

حالیہ کیس: بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ

حال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سردار شیر باز خان ستکزئی کو ضمانت دی، جو کوئٹہ کے علاقے دگاری میں ایک خاتون اور مرد کے قتل کے الزام میں گرفتار تھے۔

یہ قتل مقامی جرگے کے فیصلے پر کیا گیا تھا اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے سے قانون کی حکمرانی پر بحث چھڑ گئی تھی۔

قبل ازیں ایک ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کی تھی لیکن ہائی کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض شیر باز خان کو رہائی دی۔

(جاری ہے)

اس کیس میں پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کیا تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ضمانت کو ملزموں کے حق میں سمجھتی ہیں۔

نمایاں کیسز اور عدالتی فیصلے

قندیل بلوچ کیس: 2016 میں سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم نے ان کا قتل کیا۔ سن 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی لیکن 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی معافی اور اعتراف جرم پر قانونی سقم کی بنیاد پر محمد وسیم کو بری کر دیا۔ اس فیصلے کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل،' خواتین کو انصاف کب ملے گا؟

کوہاٹ کیس: سن 2022 میں شریف اللہ کو بیٹی کے قتل کے الزام میں سزا ہوئی لیکن 2023 میں کمزور شواہد کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا۔ اسی طرح 2017 میں سپریم کورٹ نے حافظ آباد کے 2005 کے ایک کیس میں تین افراد کو رہا کیا اور 2021 میں پشاور ہائی کورٹ نے دوہرے قتل کے کیس میں ملزم کو بری کر دیا۔

عدالتی فیصلوں کے حامی کہتے ہیں کہ یہ فیصلے شواہد پر مبنی ہوتے ہیں اور ملزمان کا منصفانہ ٹرائل ان کا حق ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کمزور تفتیش اور خاندانی دباؤ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

قانونی فریم ورک اور اس کی حدود

سن 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، جس کے تحت قاتل کو لازمی عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔

سن 2005 میں وہ شق ختم کی گئی، جس کے تحت قاتل خود کو وارث قرار دے کر معافی مانگ سکتا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین موثر ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ خاندان کیس کی نوعیت بدل کر 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو عام قتل کا رنگ دے دیتے ہیں، جس سے معافی ممکن ہو جاتی ہے۔ کمزور استغاثہ اور تفتیشی خامیاں بھی ملزمان کی رہائی کا باعث بنتی ہیں۔

'خاندان شواہد چھپاتے ہیں‘

انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ خاندان شواہد چھپاتے ہیں یا کیس کی نوعیت ہی بدل دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''خاندان غیرت کے قتل کو عام قتل بنا دیتے ہیں، جس سے معافی کا راستہ کھل جاتا ہے۔‘‘ ان کی والدہ عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ ''ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل‘‘ سمجھا جائے تاکہ ریاست ذمہ داری لے۔

پاکستان، غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں پندرہ سالہ لڑکی کا قتل

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سکریٹری جنرل حارث خلیق کہتے ہیں کہ معاشرے کے کچھ حصے پرانی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ ریاست کو اس جرم کو بغاوت سمجھ کر نمٹنا چاہیے۔ دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلے ضروری ہیں تاکہ غلط سزائیں نہ ہوں۔

غیرت کے نام پر قتل، اصل تعداد کہیں زیادہ

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2024 کے دوران پاکستان میں تقریباً 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب (178)، سندھ (134)، خیبر پختونخوا (124)، بلوچستان (33) اور گلگت بلتستان (18) میں رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

سماجی ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ پاکستان کے قانونی اور معاشرتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ تفتیش مضبوط کی جائے، جرگوں پر پابندی لگے اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ یہ ظلم ختم ہو۔

متعلقہ مضامین

  • میں اپنے ملک کو نہیں پہچان پارہی’، انجلینا جولی نے ایسا کیوں کہا؟
  • غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟
  • بھارتی کپتان سوریا کمار کا مشتاق احمد سے مصافحہ، ’اب ان کی دیش بھگتی کہاں گئی‘
  • پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کا حامی ہوں، ہاتھ نہ ملا کر نفرت وہاں سے شروع ہوئی، شاہد آفریدی
  • کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہاہے!
  • بھارتی گلوکار کمار سانو مشکل میں، سابق اہلیہ نے سنگین الزامات لگادیے
  • ہاتھ ملانے میں حرج نہیں تھا، سابق بھارتی کپتان اظہرالدین کی بھارتی ٹیم پر شدید تنقید
  • کھیلنے کی ہامی بھرلی تو ہاتھ ملانے سے انکار کیوں؟ سابق بھارتی کپتان کی شدید تنقید
  • اسپیکٹرم کیا اور پاکستان میں اس پر تنازع کیوں، اس کا انٹرنیٹ اسپیڈ سے کیا تعلق ہے؟