جونیئر کلرک کی برطرفی کیخلاف اپیل پر سماعت، خاتون وارڈن کو نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250926-08-18
اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ نے ٹریفک پولیس کے جونیئر کلرک شاہد کی برطرفی کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران کلین چٹ حاصل کرنے والی ٹریفک وارڈن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب مانگ لیاہے جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے خاتون کو چھوڑنے پر برہمی کا اظہار کیاہے کہ الزام ایک ہی تھا تو خاتون کو کیسے چھوڑ دیا گیا؟ کردار تو دونوں کا ایک جیسا ہی تھا۔ خاتون کو کلین چٹ کیسے مل سکتی تھی؟ ایسے لوگوں کو تو پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔ جائیں اب کوئی اور کام کریں۔ جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں سماعت کے دوران درخواست گزارنے کہا کہ میرے خلاف غلط مقدمہ درج کیا گیا میں مقدمہ میں بری ہوچکا ہوں۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری میں دونوں کو قصوروار قرار دیا گیا، سرکاری وکیل خاتون کو ٹیکنکل بنیاد پر بحالی ملی تھی۔ خاتون غیر حاضری پر محکمہ سے جبری ریٹائرڈ کردی گئی تھیں۔اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور خاتون ٹریفک وارڈن آمنہ کو نوٹس جاری کردیا ۔خاتون ٹریفک وارڈن اور جونیئر کلرک کو غیر شرعی تعلق پر انکوائری میں قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔ انکوائری کی بنیاد پر دونوں اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی، سروس ٹریبونل نے خاتون کو قانونی تقاضہ پورے نہ ہونے پر بحال کردیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خاتون کو
پڑھیں:
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے حقِ زوجیت کیس پر عدالت کا نوٹس جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک شہری کی درخواست پر دلچسپ پیش رفت ہوئی ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان جیل میں حق زوجیت کی ادائیگی کے لیے تنہائی میں ملاقات کا مطالبہ کیا گیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف کمشنر اسلام آباد، حکومت پنجاب، آئی جی جیل خانہ جات اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی ہے۔
درخواست گزار شاہد یعقوب نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کا فالوور ہے اور سمجھتا ہے کہ جیل میں قید میاں بیوی کو آپس میں ملاقات کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے مطابق جیل حکام نے یہ بنیادی حق سلب کر رکھا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی خلاف ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کیس میں نہ تو عمران خان اور بشریٰ بی بی خود فریق ہیں اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف نے اس درخواست کو اپنی طرف سے آگے بڑھایا ہے بلکہ پارٹی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق جیل میں قیدی اور اس کے شریک حیات کے درمیان ملاقات کے لیے ایک واضح طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت سپرنٹنڈنٹ جیل، ڈپٹی کمشنر اور پھر ٹرائل کورٹ تک درخواست دی جاسکتی ہے، اور اس کے بعد ہی ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس معاملے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اڈیالہ جیل میں فیملی روم کی سہولت موجود ہی نہیں، جو ایسی ملاقات کے انعقاد کے لیے لازمی قرار دی جاتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عدالت اس غیرمعمولی درخواست پر آئندہ سماعت میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔