کیا مذہب کو عملی سیاست سے دور رکھنا چاہیے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250928-03-7
شاہنواز فاروقی
مغربی دنیا نے مذہب کے خلاف بغاوت کی اور مذہب کو سیاست سمیت زندگی کے تمام دائروں سے نکال باہر کیا۔ مغرب اس تجربے کو خود تک محدود رکھتا تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا مگر مغرب نے ایسا نہیں کیا۔ مغرب چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان بھی سیاست کو مذہب سے بے نیاز کردیں۔ بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں مغرب کے ایجنٹوں کی کمی نہیں، چنانچہ وہ ذرائع ابلاغ کی قوت کو بروئے کارلاتے ہوئے مسلمانوں کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مسلمان ابھی تک مذہب سے اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ان میں اس طرح کے مشوروں کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں موجود مغرب کے ایجنٹوں نے اب ایک نیا طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کی اخلاقی اقدار کو سیاست میں قبول کیا جانا چاہیے مگر عملی سیاست سے مذہب کو دور ہی رکھنا چاہیے۔ ہمارے ممدوح خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستان کے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مذہب کو عملی سیاست سے دور ہی رکھیں تو اچھا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’اگر مذہب کو بچانا ہے تو اسے اقتدار کی سیاست سے دور رکھیے۔ یہی بات سیاست کے لیے بھی درست ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے اقبال کا یہ مصرع سنائیں، ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ میری درخواست ہے کہ کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کالم کو آخری سطرتک پڑھ لیا جائے۔
سیاست اور مذہب کا تعلق دو طرح سے استوار کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ سیاست اْن اخلاقی قدروں کے تابع ہو جائے جو فطرت اور انبیاء کے توسط سے انسانوں کو عطا کی گئی ہیں۔ اقتدار کی امانت اہل افراد کے سپرد ہو۔ صاحبانِ اقتدار کا انتخاب عوام کی مرضی سے ہو۔ لوگوں سے ایفائے عہد ہو۔ جھوٹ نہ بولا جائے۔ اختلاف کرتے وقت شائستگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اہل ِ سیاست اپنے اعمال کے لیے خود کو عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ سمجھیں۔ اقدار کی اس فہرست کو ہم مزید طویل کر سکتے ہیں۔
سیاست اور مذہب کا یہ تعلق نہ صرف لازم‘ بلکہ مطلوب ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اخلاقیات کے لیے مذہب ہی کیوں؟ یہ سب خواص تو سیکولر سیاست میں بھی ہو سکتے ہیں۔ میں اس وقت اتنی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ ہماری سماجی بْنت مذہبی ہے۔ ہماری اخلاقی قدریں مذہب ہی سے ماخوذ ہیں۔ اس کے بجائے کہ سماج کے لیے نیا اخلاقی چولا تیار کیا جائے‘ جس کے لیے سماجی ڈھانچے کو نیا قالب دینا ضروری ہے تاکہ نیا لباس اس کی قامت کے لیے موزوں ہو‘ ہمیں اس کی موجودہ ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے‘ اس کے لیے قبا تجویز کرنی چاہیے اور وہ مذہب ہی کی ہو سکتی ہے۔ مذہب کو‘ اس وقت سماج سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے ہمیں سیاست اور مذہب کے باہمی تعلق میں وہی ربط تلاش کرنا چاہیے جو حقیقی ہو‘ عملی ہو اور مفید بھی۔
سیاست اور مذہب کے باہمی تعلق کی دوسری صورت یہ ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ جرم ہے‘ عوام کی نظر میں بھی اور خدا کے حضور میں بھی۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ سیاسی تحریک‘ انتخابی دھاندلی کے خلاف ہو اور اسے ’’تحریکِ نظامِ مصطفی‘‘ بنا دیا جائے۔ انتخابی نشان کتاب ہو اور اسے ’الکتاب‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔ ہم خیال لوگوں کی جماعت بنائی جائے اور اسے ’’الجماع‘‘ قرار دے دیا جائے۔ اقتدار کی حریفانہ کشمکش کو حق وباطل کا معرکہ بنا دیا جائے۔ یہ مذہب کا سوئے استعمال ہے جو بدترین گناہ ہے اور میں مذہب وسیاست کے اس تعلق کی نفی کر رہا ہوں۔
خدا کے ہاں تو یہ جرم ہے ہی کہ اس کی آیات کو سستے داموں بیچا جائے‘ یہ سماج اور مذہب‘ دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے ہم مذہبوں کے خلاف‘ مذہب کے نام پر صف آرا ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو اہل ِ مذہب‘ مسلک اور فرقے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگر یہ وہاں گناہ ہے تو سیاست میں ثواب کیسے ہو گیا؟ دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کے ساتھ اس نوعیت کی حساسیت وابستہ ہو گئی ہے کہ کوئی کسی وقت مذہبی جذبات کو بھڑکا کر‘ کسی کی جان لے سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر‘ اس ملک میں جو خطرناک کھیل کھیلے جا رہے ہیں‘ ہم ان سے واقف ہیں۔ اگر ہم سیاست کے لیے بھی مذہب کو استعمال کریں گے تو یہ اس آگ پر مزید تیل ڈالنا ہو گا۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 22 ستمبر 2025ء)
مغرب نے مذہب اور سیاست میں طلاق کروائی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت صرف ’’تھیوری‘‘ یا نظری حقیقت تھی۔ سیدنا عیسیٰؑ نے کوئی ریاست قائم کی نہ اسے چلا کر دکھایا۔ انہوں نے نہ جہاد کیا نہ شادی کی۔ چنانچہ ان دائروں میں عیسائیت کا تجربہ عیسائیوں کی کوئی رہنمائی کرنے کے قابل نہیں تھا۔ مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ اسلام نظریہ یا تھیوری بھی ہے اور عملی تجربہ بھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال رسول اکرمؐ کی ہے۔ رسول اکرمؐ نے اسلام کی بنیاد پر ریاست مدینہ قائم کی اور پھر اسے انتہائی کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھایا۔ آپؐ نے ریاست میں نظام عدل قائم کیا، آپؐ کے عہد میں 60 سے زیادہ غزوات اور سرایہ ہوئے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پوری ریاست اور معاشرہ اسلام کی روشنی میں کیسے کام کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم اسلام اور عملی سیاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کریں یا مغرب کے ایجنٹ جاوید غامدی کے شاگرد خورشید ندیم سے رہنمائی حاصل کریں؟ اتفاق سے اسلام اور عملی سیاست کے باہمی تعلق کا تجزیہ سیرت طیبہ تک محدود نہیں۔ رسول اکرمؐ کے بعد صدیق اکبرؓ نے دو سال تک عملی سیاست کو اسلام کی روشنی میں آگے بڑھا کر دکھایا۔ سیدنا عمرؓ نے یہی کام دس سال تک اور سیدنا عثمان غنیؓ نے یہی کام 13 سال تک کیا۔ سیدنا علیؓ بھی چار سال تک عملی سیاست کو اسلام سے مربوط کرکے حکومت کرتے رہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم خلافت راشدہ کی روشنی کی طرف دیکھیں یا خورشید ندیم کے کالم کی تیرگی سے رہنمائی حاصل کریں؟
بلاشبہ سیدنا علیؓ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی مگر ملوک قرآن و سنت کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے نہیں ہوگئے تھے۔ انہوں نے نظام حکومت کو ایک حد تک سہی اسلام ہی کی روشنی میں چلایا۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اسے نظام حکومت اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر مجبور کیا۔ اورنگ زیب عالمگیر کہنے کو ایک بادشاہ ہی تھا مگر اس نے 50 سال تک پورا نظام حکومت قرآن و سنت کے مطابق چلایا۔ اورنگ زیب کا دربار علما سے بھرا ہوا تھا اور اورنگ زیب ان کی رہنمائی کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں کرتا تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اس شاندار تاریخی تجربے کی طرف دیکھیں یا خورشید ندیم کے کالم کی طرف نظر اٹھائیں؟
امام غزالی اتنے بڑے عالم دین ہیں کہ گزشتہ 800 سال میں ان سے بڑا کوئی عالم پیدا نہیں ہوا مگر امام غزالیؒ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف احیا العلوم میں صاف لکھا ہے کہ ریاست اور سیاست الف سے لے کر یے تک دین کی تابع ہوگی۔ ابن خلدون سے بڑا ماہر عمرانیات دنیا نے نہیں دیکھا۔ مغرب نے عمرانیات کا علم ابن خلدون سے سیکھا مگر ابن خلدون بھی اپنی تصنیف مقدمہ ٔ ابن خلدون میں لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاست اور ریاست دین کی روشنی میں چلائی جائے گی۔ 20 ویں صدی میں اقبال نے اپنی شاعری میں صاف لکھا ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس سلسلے میں اقبال کا ایک قطعہ ’’سیاست ِ افرنگ‘‘ بھی اہم ہے۔ اقبال نے اس قطعے میں کہا ہے۔
تری حریف ہے یارب سیاستِ افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
مولانا مودودیؒ 20 ویں صدی کے مجدد تھے۔ مولانا کی پوری فکر اور عملی جدوجہد مذہب اور عملی سیاست کو ہم آہنگ کرنے سے عبارت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم غزالی، ابن خلدون، اقبال اور مولانا مودودی کی بات مانیں یا غامدی کے شاگرد کی بات تسلیم کریں؟
مذہب اور اس سے پیدا ہونے والی اقدار اتنی اہم ہیں کہ مغرب کے بڑے مفکروں، دانش وروں اور مورخین نے بھی ریاست اور سیاست کے سلسلے میں مذہب کے کردار کی کھل کر تعریف کی ہے۔ افلاطون مغرب کا اتنا بڑا فلسفی ہے کہ وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ مغرب کا پورا فلسفہ افلاطون کے فلسفے کے حاشیے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی افلاطون نے کہا ہے کہ ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتیں ’’انسانی کردار‘‘ سے بنتی ہیں اور کون نہیں جانتا کہ مذاہب عالم نے جتنے بڑے انسانی کردار پیدا کیے ہیں اتنے بڑے انسانی کردار کسی بھی فکر نے پیدا نہیں کیے۔ آرنلڈ ٹوائن بی 20 ویں صدی کا سب سے بڑا مورخ ہے۔ اس نے صاف کہا ہے کہ تہذیبوں کے اخلاقی زوال اور تکنیکی عروج میں ایک ربط باہمی پایا جاتا ہے۔ یعنی جو تہذیبیں اخلاقی اعتبار سے پست ہوجاتی ہیں وہی تکنیکی ترقی کی طرف جاتی ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے اخلاقی زوال مذہب سے دوری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مغرب کا ایک اور بڑا مورخ اسپینگلز ہے۔ اس نے اپنی تصنیف زوال مغرب میں لکھا ہے کہ کلچر کے عروج کا زمانہ اس کے مذہب کے آغاز کا زمانہ ہوتا ہے۔ یہی بات مسلم مفکرین بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کلچر اور ریاست و سیاست کا بہترین زمانہ عہد رسالتؐ تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ تھی۔ مغرب نے چونکہ مذہب کو مسترد کردیا ہے اس لیے مغرب کا کلچر ہی نہیں اس کی پوری سیاست بھی کچرے کا ڈھری بن گئی ہے۔ اسپینگلز نے ایک اور ’’مزیدار بات‘‘ یہ کہی ہے کہ کلچر کے زوال کی علامتوں میں ایک علامت یہ ہے کہ اس کلچر میں بلند عمارتیں تعمیر ہونے لگتی ہیں اور سیاست ’’دولت مرکز‘‘ ہوجاتی ہے حد تو یہ ہے کہ معاشرہ ’’بے خدا‘‘ ہوجاتا ہے۔ مغرب کے ایک دانش ور ڈیولن نے جو ایک جج بھی تھا کہا ہے کہ معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے مستحکم اخلاقیات اچھی حکومت ہی کی طرح ناگزیر ہوتی ہے۔
معاشرے اکثر صورتوں میں خارجی دبائو کے بجائے اندر سے فنا ہوتے ہیں۔ امریکا کے جنرل میک آرتھر کی بات بھی اس حوالے سے سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے تاریخ ایسی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں قومیں اخلاقی زوال کے بعد سیاسی اور معاشی زوال کا شکار نہ ہوئی ہوں۔ مغرب کے ممتاز مورخ گبن نے کہا ہے کہ سلطنت روما کا زوال خیر کے عمومی زوال اور انفرادی اخلاقیات کے زوال کا شاخسانہ تھا۔ گبن کے بقول جس طرح ریاضی اور طبیعات کے قوانین ناقابل تغیّر ہیں اسی طرح اخلاقی قوانین بھی ناقابل تغیّر ہیں۔ خورشید ندیم کچھ اور نہیں تو مغرب کے اہل نظر کی باتیں ہی سمجھ لیں۔
خورشید ندیم نے سیاست میں مذہب کے غلط استعمال کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ بھٹو نے 1977ء میں انتخابی دھاندلی کی تھی چنانچہ اس کے خلاف انتخابی دھاندلی کی تحریک چلنی چاہیے تھی مگر بھٹو کے حریفوں نے بھٹو کے خلاف تحریک کو تحریک نظام مصطفی بنادیا۔ تحریک نظام مصطفی میں جماعت اسلامی اور سید منور حسن کا کردار بنیادی تھا اور اس کا اخلاقی اور مذہبی جواز یہ تھا کہ اس وقت پاکستان میں اصل کشمکش اسلام اور سیکولر ازم کی تھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور بھٹو صاحب اپنے سیکولرازم پر پردہ ڈالنے کے لیے اسلامی سوشلزم ایجاد کرکے بیٹھ گئے تھے۔ چنانچہ جماعت اسلامی بھٹو کے خلاف تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں ڈھال کر معاشرے کو ’’فروعات‘‘ سے اوپر اٹھا کر ’’اصل‘‘ کی طرف لائی تھی۔ یہ تحریک اتنی کامیاب تھی کہ جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضے کے بعد لیپا پوتی اور نمائش کے لیے جتنے اسلامی اقدامات کیے وہ تحریک نظام مصطفی کے اثرات کا نتیجہ تھے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تحریک نظام مصطفی سیاست اور مذہب کے باہمی تعلق کی روشنی میں عملی سیاست سلسلے میں اور سیاست سیاست میں رسول اکرم کہا ہے کہ نے کہا ہے سیاست کے کیا جائے اور عملی سیاست سے مذہب اور انہوں نے سیاست کو مغرب کا مغرب کے مذہب کو کے خلاف اور اسے سیاست ا مذہب کے سال تک کی طرف ہیں کہ اور اس کی بات کے لیے کے بعد
پڑھیں:
پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں، مریم نواز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈی جی خان : وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، سندھ کا کیا حال ہے میں بات نہیں کرنا چاہتی، اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں ہم پنجاب کو سنبھال لیں گے۔
ڈی جی خان میں الیکٹرک بس مںصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ میں کیوں دنیا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہی، میں نواز شریف کی بیٹی ہوں کسی کے آگے امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گی، کوئی باعزت شخص امداد مانگنے کی بات کیسے کرسکتا ہے؟ مجھے کسی امداد کی ضرورت نہیں، پنجاب کے عوام کا پیسہ پنجاب کے عوام پر ہی خرچ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بلاول میرا چھوٹا بھائی ہے مگر انہیں کہنا چاہتی ہوں کہ پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کو سمجھائیں، سندھ میں کیا ہورہا ہے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتی آپ اپنے صوبے کو دیکھیں اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں ہم پنجاب کو سنبھال لیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی بات کرنے والوں کو یہاں بھی اقتدار ملا تھا، جنوبی پنجاب میں کام تو نواز شریف اور شہباز شریف نے کیا تھا، ماضی میں جنوبی پنجاب کو نعروں کے سوا کچھ نہیں ملا ہم یہاں عملی کام کررہے ہیں، جنوبی پنجاب کے صوبوں میں اسکول کے بچوں کو دودھ بھی دیا جاتا ہے۔
مریم نواز شریف نے کہا کہ بار بار جنوبی پنجاب کی بات کرکے لکیر کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، جنوبی پنجاب کی بات کرنے والوں نے ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا، جنوبی پنجاب میرے لیے اپنے بیٹے جنید کی طرح ہے، کسی کو پنجاب کے لوگوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دوں گی، میں جنوبی اور وسطی کی نہیں پورے ایک صوبے کی وزیراعلی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی میں صرف دس ہزار کی امداد ہے جب کہ ہم دس لاکھ روپے کی مدد کرنا چاہتے ہیں، جن کا لاکھوں کا نقصان ہوگیا اس کو دس ہزار سے کیا ہوگا؟مریم نواز نے کہا کہ ڈی جی خان ڈویژن کیلیے 101 بسیں چلیں گی، لیہ، مظفرگڑھ، راجن پور، تونسہ، کوٹ ادو میں ای بسیں چلیں گی، ماحول دوست بسوں میں خواتین، طلبہ، بزرگوں کیلیے مفت سفر ہوگا، معذور اور خصوصی افراد کیلیے بسوں میں ریمپ کی سہولت موجود ہے، خواتین کیلیے بسوں میں محفوظ اور باعزت الگ جگہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بارڈر ملٹری پولیس میں پہلی بار خواتین کی شمولیت سے خوشی ہوئی، تمام شہروں کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔