امریکا نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ تیار کیا ہے جس کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کچھ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو غزہ میں ہی رہنے کی ترغیب دی جائے گی اور مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس منصوبے میں یرغمالیوں کی رہائی، حماس کے غیر مسلح ہونے اور غزہ کو ایک غیر عسکری خطہ بنانے جیسے نکات شامل ہیں۔

امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کی سربراہی میں تیار ہونے والا یہ منصوبہ آئندہ دنوں میں مزید واضح اور حتمی شکل اختیار کرے گا۔ تاہم اس میں کئی ایسے نکات بھی ہیں جنہیں اسرائیل کے سخت گیر حلقوں کے لیے قبول کرنا مشکل ہوگا، بالخصوص فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے والا پہلو۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’فلسطینیوں کو ریاست دینا القاعدہ کو نیویارک کے قریب ریاست دینے کے مترادف ہوگا‘۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرامید ہیں کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اسرائیلی خبر رساں ادارے “ٹائمز آف اسرائیل“ نے غزہ منصوبے کے 21 نکات کی تفصیلات شئیر کی ہیں، جن کے مطابق:

غزہ کو غیر عسکری اور دہشت گردی سے پاک خطہ بنایا جائے گا تاکہ یہ اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ رہے۔

غزہ کی تعمیرِ نو کی جائے گی تاکہ عوام کو بہتر سہولیات میسر آئیں۔

اسرائیل اور حماس کے منصوبے پر اتفاق کے فوراً بعد جنگ ختم ہوگی اور اسرائیلی فوج بتدریج انخلا کرے گی۔

اسرائیل کی جانب سے منصوبہ قبول کرنے کے 48 گھنٹے کے اندر تمام زندہ اور جاں بحق یرغمالیوں کو واپس کیا جائے گا۔

یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل سیکڑوں فلسطینی قیدیوں اور ہزار سے زائد گرفتار غزہ کے شہریوں کو رہا کرے گا۔

حماس کے وہ ارکان جو پُرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی جبکہ دیگر کو محفوظ راستہ دیا جائے گا۔

معاہدے کے بعد روزانہ کم از کم 600 ٹرک امداد غزہ میں داخل ہوں گے، بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور ملبہ ہٹانے کا کام شروع ہوگا۔

امداد کی تقسیم اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار ادارے کریں گے، دونوں فریق مداخلت نہیں کریں گے۔

غزہ میں عبوری ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوگی جسے امریکا اور عالمی ادارے نگرانی فراہم کریں گے، بعد ازاں اصلاحات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو کردار مل سکتا ہے۔

ماہرین کی مدد سے ایک معاشی منصوبہ تیار ہوگا تاکہ غزہ کو جدید خطوط پر دوبارہ بسایا جاسکے۔

ایک خصوصی معاشی زون بنایا جائے گا جہاں کم ٹیرف اور سرمایہ کاری کی ترغیبات دی جائیں گی۔

کسی کو غزہ سے زبردستی نہیں نکالا جائے گا، عوام کو یہیں بہتر مستقبل کی ضمانت دی جائے گی۔

حماس کو غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا اور عسکری تنصیبات ختم کی جائیں گی۔

خطے کے شراکت دار ممالک سلامتی کی ضمانت دیں گے تاکہ غزہ امن قائم رکھے۔

عرب ممالک کے تعاون سے ایک عبوری بین الاقوامی فورس غزہ میں تعینات ہوگی جو مقامی پولیس کو تربیت دے گی۔

اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور فوجی علاقے عالمی فورس کے حوالے کرے گا۔

اگر حماس نے منصوبہ مسترد کیا تو بھی غیر عسکری علاقوں میں یہ نکات نافذ ہوں گے۔

اسرائیل قطر میں مزید حملے نہیں کرے گا، امریکا اور عالمی برادری قطر کے ثالثی کردار کو تسلیم کرے گی۔

غزہ اور اسرائیل کی آبادی میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب مکالمہ شروع کیا جائے گا۔

جب غزہ کی تعمیرِ نو مکمل ہوگی اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے گی تو فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ کھل سکتا ہے۔

امریکا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے پُرامن بقائے باہمی کے سیاسی افق پر بات چیت کرے گا۔

یہ منصوبہ فی الحال ابتدائی نوعیت کا ہے اور تفصیلات پر مزید مذاکرات متوقع ہیں، تاہم اس نے غزہ کے مستقبل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست جائے گی حماس کے جائے گا کے لیے کرے گا

پڑھیں:

عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی

اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے 23 ماہ اور 23 دن اور 65 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد جنگ بندی کا ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو نے وائٹ ہاوس کے دباو پر قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی سے دوحا پر حملے کے دوران ایک قطری شہری کی ہلاکت پر معافی بھی مانگی۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ میں امن کی بحالی کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا جو اکثر عرب اور اسلامی ممالک کی توجہ کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کم از کم پانچ سالہ نگران انتظامیہ کے بعد متحدہ فلسطینی ریاست تشکیل پانے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
 
اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
 
ان حکومتوں نے مختلف قسم کے اقتصادی اور سیکورٹی بہانوں کے ذریعے فلسطینی قوم کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے اور غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ یہ انداز نہ صرف فلسطین کاز سے غداری ہے بلکہ ایسی رژیم سے واضح اظہار یکجہتی بھی ہے جو اپنی بقا کو بحران اور جارحیت جاری رکھنے میں دیکھتی ہے۔ صیہونی وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات ختم ہوتے ہی نیتن یاہو نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: "میں نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بالکل اجازت نہیں دی اور اس معاہدے میں بھی ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی سخت مخالفت کی ہے اور امریکی صدر اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔" صیہونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق امریکہ نے دونوں بنیادی ایشوز یعنی غزہ سے اسرائیل کا فوجی انخلاء اور حماس کے غیر مسلح ہونے کو کاغذ پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن جو نسخہ گذشتہ ہفتے شریک عرب اور اسلامی ممالک کو دیا گیا ہے اس میں ان ایشوز کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
 
البتہ پیر کے دن اس معاہدے کا نیا نسخہ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے: "اسرائیلی فوجیں طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی۔" نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں جو نقشہ جاری کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ جانے کے باوجود تمام یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی خاطر غزہ کے وسیع علاقے میں جہاں بھی چاہیں موجود رہ سکتی ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عرب اور اسلامی ممالک پر مشتمل "بین الاقوامی فوج" غزہ میں تعیینات ہونے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی اسرائیلی فوج جہاں ہے وہاں موجود رہے گی۔ اسی طرح تل ابیب کے مدنظر نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پوری پٹی کے اردگرد ایک سیکورٹی بفر زون قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی دراصل اسرائیل کا مطالبہ تھا جس کا مقصد طوفان الاقصی جیسا آپریشن دوبارہ دہرائے جانے سے روکنا ہے۔
 
اس معاہدے کا اہم حصہ جنگ بندی کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ پر نگران انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہونا ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر نے 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق کی لاحاصل جنگوں کے لیے فوج بھیجی تھی لہذا وہ غزہ میں امن منصوبے کے اجرا کے لیے مناسب شخص نہیں ہے۔ برطانوی اخبار گارجین اور صیہونی اخبار ہارٹز کی جانب سے 21 صفحات پر مشتمل اس معاہدے کی دستاویز شائع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام بین الاقوامی عہدیداروں کے سپرد کیا جائے گا اور فلسطینیوں کو بنیادی عہدے نہیں دیے جائیں گے۔ اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کی بھی ذمہ دار ہو گی اور اس کام کے لیے وہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
 
اخبار اکونومسٹ کے مطابق اس منصوبے میں اصل رکاوٹ حماس کا موقف ہے۔ حماس کے لیے ابتدائی طور پر یرغمالیوں کو آزاد کر دینا ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا واحد ہتھکنڈہ یہی یرغمالی ہیں۔ حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں جنگ شدت اختیار کر جانے کے باعث اس کا تمام یرغمالیوں سے رابطہ بھی برقرار نہیں ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملہ نہیں کرے گا۔ حماس اپنے ہتھیاروں کو "مزاحمت" پر مبنی اپنے تشخص کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے اور غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے۔ مزید برآں، اب تک کسی ملک نے غزہ کے لیے بین الاقوامی فوج کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لہذا اس منصوبے پر عملدرآمد فی الحال دور از امکان دکھائی دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فوج کا امریکی سرمایہ کاری سے ایک نئی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ؟
  • مسٹری اسپنر ابرار احمد دولہا بننے کو تیار، شادی سے متعلق تفصیلات سامنے آگئیں
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  • اسرائیل ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، حاجی حنیف طیب
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  •  آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں چھوڑیں گے، حماس کا دو ٹوک اعلان
  • عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی
  • صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان
  • غزہ جنگ بندی منصوبہ، امیر قطر شیخ تمیم کا امریکی صدر کو فون
  • ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟