امریکہ کا چین اور شمالی کوریا کے قریب ڈرون یونٹ مستقر کرنیکا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
مبصرین کے مطابق جنوبی کوریا میں واقع ایک ڈرون یونٹ کا فعال ہونا، پینٹاگون کے خطے میں ڈرون آپریشنز کی توسیع ہے، جہاں ایئر فورس، میرین کور اور نیوی ڈرون جاپان میں تعینات ہیں تاکہ مسلسل انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیتیں فراہم کی جا سکیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی فضائیہ جزیرہ نما کوریا اور چین کے قریب مستقل طور پر ایک ڈرون یونٹ تعینات کر رہی ہے، اس طرح بحر ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی کوجنگ عظیم کے دور کے سکواڈرن تعینات کر کے ہوا دی جارہی ہے۔ نیوز ویک نے رپورٹ کیا ہےکہ امریکہ نے جنوبی کوریا میں MQ-9 ڈرونز کا ایک سکواڈرن تعینات کر کے شمالی کوریا کے خلاف مشرقی ایشیا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔اسی طرح امریکی فوج نے اپنے کچھ فوجی سازوسامان بشمول اپ گریڈ شدہ F-16 اور F-35 اسٹیلتھ فائٹرز کو جنوبی کوریا اور جاپان میں تعینات کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق جنوبی کوریا میں واقع ایک ڈرون یونٹ کا فعال ہونا، پینٹاگون کے خطے میں ڈرون آپریشنز کی توسیع ہے، جہاں ایئر فورس، میرین کور اور نیوی ڈرون جاپان میں تعینات ہیں تاکہ مسلسل انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیتیں فراہم کی جا سکیں۔ دریں اثنا، شمالی کوریا اپنی روایتی فوجی طاقت کو تقویت دینے کے لیے ایسے ڈرون تیار کر رہا ہے جو امریکی ڈرونز کی طرح نظر آتے ہیں۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے حال ہی میں ڈرون ٹیسٹ کی تقریب میں شرکت کی اور اس منصوبے کی ترقی کی تعریف کی۔ سی این این نے اس خبر پر تبصرے میں کہا ہے کہ ڈرون یونٹ کا نام، سکواڈرن 431، دوسری جنگ عظیم کی نشانی ہے۔
1943 میں اسکواڈرن 431 کو آسٹریلیا میں فعال کیا گیا تھا اور بحرالکاہل کے وارتھیٹر میں امریکی بمباروں کو بچانے کے لیے طویل فاصلے کے P-38 لائٹننگ فائٹرزاڑائے گئے تھے۔ 2,575 کلومیٹر سے زیادہ کی توسیعی رینج اور فضائی ایندھن کے ساتھ لامحدود پرواز کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، MQ-9 ڈرون، جو گنسن ایئر بیس پر موجود ہیں، خطے میں امریکی افواج کی جانب سے ایک اہم دھمکی ہیں۔ ڈرونز کی رینج نہ صرف شمالی کوریا بلکہ مشرقی بحیرہ چین اور تائیوان کو بھی محیط ہے۔ چین گانسان سے صرف 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور بحیرہ بوہائی، جہاں چینی بحریہ اکثر مشقیں کرتی رہتی ہے، امریکی فضائی اڈے سے تقریباً 950 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنوبی کوریا شمالی کوریا ڈرون یونٹ
پڑھیں:
بھوک، ڈرون، دہشت اور موت: غزہ کے ہسپتال میں گزارے 30 منٹ کا احوال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے غزہ کے عارضی ہسپتالوں میں مخدوش صورت حال کے بارے میں خبردار کیا ہے جہاں نومولود آکسیجن سے محروم ہیں اور روزانہ بڑی تعداد میں زخمی بچے لائے جا رہے ہیں جو روٹی کی تلاش میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ترجمان جیمز ایلڈر نے ایک ہسپتال کے مختصر دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جہاں بھی نظر دوڑائی، بچے یا تو تکلیف میں تھے یا جان کی بازی ہار چکے تھے۔
مرکزی غزہ کے علاقے دیر البلح میں واقع الاقصیٰ اسپتال میں ایک چھ سالہ بچی لائی گئی جو فضائی حملے میں زخمی ہوئی تھی اور اس کے زخم دیکھنا آسان نہیں تھا۔ اس کے بالوں میں ربن اور کلپ دکھائی دے رہے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ والدین نے کس قدر محبت سے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔(جاری ہے)
Tweet URLبدقسمتی سے یہ بچی ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئی اور انہوں نے یہ سب کچھ اور ایسے دیگر کئی مناظر ہسپتال میں صرف 30 منٹ کے دورے میں دیکھے۔
بھوکوں پر ڈرون سے فائرنگانہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ان کے سامنے تین ایسے بچے لائے گئے جو ڈرون کی فائرنگ کا نشانہ بنے تھے۔اطلاعات کے مطابق، ایسی بیشتر ہلاکتیں خوراک کی تلاش میں نکلے لوگوں پر فائرنگ سے ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ہسپتال کے فرش پر پڑے ایک زخمی بچے کو دیکھا جسے غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مرکز میں گولی لگی تھی۔ علاوہ ازیں، ہسپتال میں موجود دیگر لوگوں میں بھی بیشتر کو گولیوں، بموں کے ٹکڑوں یا جلنے کے زخم آئے تھے۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ دو سالہ جنگ میں تقریباً ایک ہزار نومولود بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ناقابل علاج بیماریوں کے سبب موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد نامعلوم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے 36 میں سے صرف 14 ہسپتال کسی حد تک فعال ہیں جہاں ہر جا بیمار اور زخمی لوگوں کا رش دکھائی دیتا ہے۔
موت، خوف اور انخلاجیمز ایلڈر نے بتایا ہے کہ انہوں نے ہسپتال میں ایک ایسی بچی کو بھی دیکھا جسے کچھ ہی دیر قبل ملبے سے نکالا گیا تھا اور اس کا جسم گرد سے ڈھکا ہوا تھا اور چہرے پر شدید خوف کے آثار نمایاں تھے۔
انہیں جس عمارت کے ملبے سے نکالا گیا وہاں کچھ ہی دیر پہلے ہونے والے حملے میں ان کی والدہ اور بہن ہلاک ہو گئی تھیں۔انہوں نے کہا غزہ میں ہزاروں لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہیں جن میں بیشتر کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر سے مکمل انخلا کا حکم دیے جانے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد جنوب کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے۔
ان میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں جن کی نگاہیں آسمان پر ٹکی رہتی ہیں کہ کہیں کوئی ڈرون ان پر حملہ نہ کر دے۔ بہت سے بچوں کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہوتے جبکہ ان کی بڑی تعداد جنگ میں جسمانی طور پر معذور ہو چکی ہے جو انتہائی کٹھن حالات میں ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔امدادی کارکنوں کی ہلاکتیںغیرسرکاری ادارے 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (ایم ایس ایف) نے غزہ میں اپنے 14ویں طبی کارکن کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
عمر حائق نامی یہ کارکن دیرالبلح میں ایک حملے کا نشنہ بنے جبکہ ان کے چار ساتھی زخمی ہوئے۔مقبوضہ فلسطینی علاقے میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے کہا ہے کہ طبی کارکن خوفزدہ ہیں۔ انہیں کہیں تحفظ حاصل نہیں ہے اور بالخصوص ان کے لیے شمالی غزہ میں کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے عہدیدار کرسٹین کارڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ حتیٰ کہ فیلڈ ہسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں اور وہاں بھی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔