Express News:
2025-11-18@01:41:53 GMT

افغانستان اور دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT

کیا پاکستان اور افغانستان ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟ کیا تعلقات کی بہتری میں سیاسی ،سفارتی اور عالمی علاقائی تعاون کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان میں ایک دوسرے کے لیے نہ صرف بداعتمادی کا ماحول ہے بلکہ بگاڑ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ترکی، قطر اور پس پردہ چین سمیت سعودی عرب کی سفارتی کوششیں بھی بظاہر لگتا ہے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔پاکستان بدستور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف بڑے اقدامات پر طالبان حکومت سے تحریری ضمانت چاہتا ہے ، مگر افغان طالبان اس پر تیار نہیں ۔

اصل میں افغانستان کی طالبان حکومت کو بھارت کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔افغان طالبان کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف ہے ۔بھارت طالبان کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ طالبان کی حمایت اور مدد کے ساتھ وہ پاکستان پر نہ صرف دباؤ بڑھا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔یہی ایجنڈا افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کا ہے۔

اس لیے بھارت اور افغان طالبان کا مفاد اسی میں ہے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری نہ آئے۔ یعنی دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہی ان کا سیاسی مفاد ہے۔ حالانکہ افغانستان کے اپنے داخلی حالات کی بہتری اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کے پاکستان سے تعلقات اچھے نہیں ہوتے ۔لیکن بھارت جو اس خطہ میں پاکستان مخالف سرگرمی کا اپنا ایجنڈا رکھتا ہے ۔

اسی طرح افغانستان کے حکمرانوں کا ایجنڈا بھی پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا ہے۔ بھارت کی حالیہ پاکستان مخالف جنگجویانہ مہم میں ناکامی کے بعد وہ کسی بھی طور پر پاکستان کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کی حالیہ حکمت عملی میں پاکستان کو سبق سکھانا ہے اور وہ اس عمل میں سمجھتا ہے کہ افغانستان کی مدد سے ایسا کرنا زیادہ آسان ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی ذرایع کے مطابق حال ہی میں وانا کیڈٹ کالج حملہ یا اسلام آباد میں ہونے والی دہشت گردی میں تمام دہشت گرد افغان شہری تھے اور ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہی ہوئی تھی۔ ان کے بقول منصوبہ بندی خارجی زاہد جب کہ حکم نور ولی نے دیا ، جب کہ دہشت گردوں کو اسلحہ افغانستان سے ملا اور دہشت گرد مسلسل کابل سے ہدایات لیتے رہے ۔اسی طرح سیکیورٹی ذرایع یہ بھی کہتے ہیں کہ ان حملوں کا مقصد بھارتی خفیہ ایجنسی را کے کہنے پر پاکستان میں سیکیورٹی کے خدشات کو بڑھانا تھا اور ٹی ٹی پی پر دباؤ سے بچنے کے لیے جیش الہند سے ذمے داری قبول کرائی گئی۔

ایک کوشش پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ سیریز کو بھی ختم کرانے کی، کی گئی جو دونوں ممالک کے تعاون اور سیکیورٹی یقین دہانی کی بنیاد پر نہیں ہوسکی ۔پاکستان کا موقف ہے کہ ہم افغانستان سے تحریری ضمانت اس لیے لینا چاہتے ہیں کیونکہ ماضی میں جو بھی کمٹمنٹ دہشت گردی کے خاتمے یا ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کے تناظر میں افغانستان نے زبانی بنیادوں پر دی، اس پر افغان حکومت نے عملدرآمد نہ کیا۔

افغان حکومت اس نقطہ کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ بھارت اس سے تعلقات کی بہتری کو پاکستان مخالفت کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے اور یہ پاکستان کو قبول نہیں۔اصولی طور پر تو پاکستان اور افغانستان جن کا دہشت گردی بنیادی مسئلہ ہے اس کے لیے وہ باہمی تعاون مشترکہ میکنزم اور حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھتے اور جو بھی عناصر دونوں اطراف سے دہشت گردی کرتے ہیں یا جو علاقائی سطح کے ممالک دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہیں ان کے خلاف متحد ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان کے وزیر دفاع کے بقول اگر افغانستان سے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو پھر ہمارے پاس جنگ یا طاقت کے استعمال کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچے گا اور ہم اپنی داخلی سلامتی اورسیکیورٹی کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ اگر افغانستان کی حکومت نے دہشت گردوں کی سرپرستی ترک نہ کی اور ظاہر ہے کہ پاکستان کو کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تواس کے اثرات کیا ہوں گے ؟ خطے میں نئی کشیدگیاں جنم لیں گی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ترکی اور قطر ایک بار پھر اپنی سفارت کاری کی مدد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے حامی ہیں اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کس حد تک نہ صرف دوبارہ دونوں ممالک کو سیاسی بیٹھک کا حصہ بناتے ہیں بلکہ اسے نتیجہ خیز بنانے میں کوئی بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔خود ایران نے بھی دونوں ممالک کو پیش کش کی ہے کہ وہ مصالحت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی پر دیگر علاقائی ممالک کو بھی سخت تشویش ہے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ افغانستان نے 2020دوحہ مذاکرات میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کی سرزمین پاکستان سمیت کسی کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیںہوگی ، مگر وہ اس پر عملدرآمد نہیں کرسکا جو عملاً حالات کی خرابی کا سبب بنا ہے۔

اسی طرح اس میں بھی اب کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کی نہ صرف سیاسی سرپرستی کرتی ہے بلکہ ان کو محفوظ پناہ گاہیںبھی دی ہوئی ہیں۔ایک بڑا چیلنج بھارت اور افغانستان دونوں کی پاکستان میں جاری پراکسی جنگ ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کے داخلی سیکیورٹی کے چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں ۔ چین ،سعودی عرب ، قطر ،ترکی اور ایران اس کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور افغانستان پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ تحریری ضمانت دے کر خود کو اور خطے کو ایک بڑی جنگ سے بچا سکتا ہے، اسی میں ہم سب کا مفاد جڑا ہوا ہے۔

دوسری طرف ہمارا افغانستان کے تناظر میں ایک مسئلہ داخلی بھی ہے اور یہ مسئلہ خیبر پختون خوا کا ہے جہاں حکومت مخالف جماعت پی ٹی آئی اقتدار میں ہے۔حال ہی میں اس نے افغانستان اور اپنی صوبائی داخلی صورتحال یا دہشت گردی یا جنگی حکمت عملی کے تناظر میں ایک بڑے امن جرگہ کا انعقاد کیا جس میں صوبائی اسمبلی کے حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان سمیت گورنر ،صوبائی سیاسی جماعتوں ،میڈیا سمیت قبائلی عمائدین کو بھی دعوت دی ۔اس جرگہ کا مشترکہ اعلامیہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔اول اس جرگہ میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا گیا کہ ہم سب سیاسی اورعسکری قیادت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہیں ،البتہ وفاقی حکومت افغانستان کے بارے میں خارجہ پالیسی کو صوبائی حکومت کی مشاورت سے ترتیب دیا جائے۔دوئم وقت آگیا ہے کہ اس دہشت گردی کے ناسور کا پائیدار ،جامع اور مستقل حل نکالا جائے اور بند کمروں کے بجائے مشترکہ اور حقیقت پسندانہ پالیسی تشکیل دی جائے ۔

سوئم، قانون کے دائرہ کار میں صوبہ کے وسائل کو بروئے کار لایاجائے،پولیس اور سی ٹی ڈی داخلی سلامتی کی قیادت کریں ،سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں پر ان کیمرہ بریفنگ دی جائے،پاک افغان سرحد کے تمام تاریخی ،تجارتی راستوں کو فی الفور کھولا جائے ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی صوبائی جماعتیں اور قیادت بھی اس جرگہ کا حصہ تھیں اور مشترکہ اعلامیہ پر ان کے دستخط بھی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت افعانستان کے تناظر میں جو بھی حتمی پالیسی اختیار کرے، اس میں صوبائی حکومت اور صوبائی جماعتوں سمیت تمام قبائلی عمائدین کی مشاورت شامل ہو اور ایک مشترکہ حکمت عملی پر سب کا اتفاق ہو۔کیونکہ سیاسی اور غیر سیاسی تقسیم کی موجودگی اور بالخصوص خیبر ُپختونخوا جو خود دہشت گردی کا مرکز ہے اس کی قیادت کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا کارگر یا درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کہ افغانستان افغانستان کے افغانستان کی افغان طالبان کے تناظر میں دہشت گردی کے پاکستان کو پاکستان کے حکمت عملی کہ افغان چاہتا ہے ٹی ٹی پی ہے بلکہ کے خلاف کو بھی کے لیے ہے اور

پڑھیں:

حکومتِ سندھ نے انسدادِ دہشت گردی کی آٹھ عدالتیں ختم کردیں

ختم کی جانیوالی عدالتوں میں کورٹ نمبر ایک، دو، تین، سات، آٹھ، سترہ، اٹھارہ اور انیس شامل ہیں، جبکہ انسدادِ دہشت گردی کورٹ نمبر چار بھی اس وقت خالی ہے، حکومتِ سندھ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے تین ججز کا کنٹریکٹ بھی منسوخ کردیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حکومتِ سندھ نے انسدادِ دہشت گردی کی آٹھ عدالتیں ختم کر دیں، جس کے بعد ان عدالتوں میں زیرِ سماعت تمام مقدمات کو دیگر فعال عدالتوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ ختم کی جانیوالی عدالتوں میں کورٹ نمبر ایک، دو، تین، سات، آٹھ، سترہ، اٹھارہ اور انیس شامل ہیں، جبکہ انسدادِ دہشت گردی کورٹ نمبر چار بھی اس وقت خالی ہے، حکومتِ سندھ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے تین ججز کا کنٹریکٹ بھی منسوخ کردیا ہے۔ کنٹریکٹ ختم کیے جانے کی وجہ ان ججز کی زیادہ عمر بتائی گئی ہے۔ محکمہ قانون کے مطابق انسداد دہشتگردی کے کیسز میں کمی کے باعث انتظامی ڈھانچے کی ازسرِنو تشکیل کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
  • واویلا کیوں؟
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر ...نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بجائے بہانے بنا رہی ہے، احسن اقبال
  • افغانستان دہشت گردی میں ملوث ہے‘وفاقی وزیر داخلہ
  • دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان سے معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے، وزیر دفاع
  • حکومتِ سندھ نے انسدادِ دہشت گردی کی آٹھ عدالتیں ختم کردیں
  • افغانستان دہشت گردی میں ملوث ہے، امن تباہ کرنےوالے انسانیت سےعاری درندے ہیں، وزیر داخلہ