کمار سانو نے سابقہ اہلیہ کو الزامات عائد کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
MUMBAI:
بھارت کے مشہور گلوکار کمار سانو نے اپنی سابقہ اہلیہ ریتا بھٹاچاریا کو ان کے خلاف الزامات عائد کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا۔
بھارتی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ریتا بھٹاچاریا نے کمارسانو پر الزامات عائد کیے تھے کہ انہوں نے ان پر اور ان کے بچوں کے ساتھ غلط سلوک کیا، انہیں بنیادی ضروریات سے محروم رکھا اور حمل کے دوران عدالت میں گھسیٹا۔
ریتا بھٹاچاریا نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کمار سانو کے رویے پر بات کی تھی اور کہا تھا کہ عاشقی فلم سے شہرت ملتے ہیں ان کے تیور بدل گئے تھے، غیرمحفوظ محسوس کرتے تھے اور گھر سے جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔
کمار سانو کی سابقہ اہلیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ کمارسانو کی بہن بھی ان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوتی تھیں جبکہ وہ بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی تھیں۔
بعد ازاں کمار سانو نے الزامات یکسر مسترد کردیے تھے اور ان کی وکیل ثنا رئیس خان نے ریتا بھٹا چاریہ کو قانونی نوٹس بھیج دیا اور نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کو بیانات کےذریعے بدنام کیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ اگر مزید ایسی کوئی کوشش کی گئی تو مزید بھرپور قانونی کارروائی کی گئی۔
وکیل نے کمارسانو کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ انہوں نے سدابہار موسیقی دی ہے اور نسلوں کے لیے یاد گار میوزک دیا ہے اور اس طرح کے بے بنیاد الزامات اور جھوٹے بیانات سے ان کی شہرت کو داغ دار نہیں کیا جاسکتا۔
کمار سانو اور ریتا بھٹاچاریا کی شادی 1980 میں ہوئی تھی اور 1994 میں دونوں کی طلاق ہوئی تھی، اس کے بعد کمار سانو نے 2001 میں سالونی بھٹاچاریا سے شادی کی، جن کے ساتھ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو فیئر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ملزمان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ کسی میڈیا پرسن کو زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دے گا، زیر حراست ملزم کا انٹرویو اس کی عزت نفس اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے، زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، زیر حراست ملزم کے انٹرویو کی تمام ذمہ داری تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ پر ہوگی۔عدالت نے بتایا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کی تذلیل کرنا افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لیے شہریوں کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہرت کی خواہش بذات خود قابل اعتراض نہیں ہے۔
مذکورہ مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی اور زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیر حراست ملزمان کے انٹرویو سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ فوجداری نظام انصاف کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہوسکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اس کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویو میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب ہے کہ کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور وار ڈکلیئر کرنے کے لیے عوامی رائے قائم کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کو عدلیہ اور تفتیشی کی ڈومین سے تجاوز کر کے اوپر نہیں جانا چاہیے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فئیر ٹرائل پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا، اس کیس میں ایک طرف آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فئیر ٹرائل اور بنیادی حقوق کو بیلنس کرنا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، میڈیا کو غلط، ہتک آمیز، غیر پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مزید کہا گیا ہے کہ زیر حراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے، موجودہ کیس میں زیر حراست کا دائرہ وسیع کرتےہوئے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر روکنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔