مظفر آباد: حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
مظفرآباد:
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ مظفرآباد میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی ہدایت پر بھیجی گئی ہماری مذاکراتی ٹیم اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر کے نمائندگان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں، ان کے زیادہ تر مطالبات جو عوامی مفاد میں ہیں، پہلے ہی منظور کیے جا چکے ہیں اور باقی چند مطالبات جن کے لیے آئینی ترامیم درکار ہیں ان پر بات چیت جاری ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، ہماری امید ہے کہ ایکشن کمیٹی تمام مسائل کو پرامن مکالمے کے ذریعے حل کرے گی۔
مظفرآباد میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی ہدایت پر بھیجی گئی ہماری مذاکراتی ٹیم اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر کے نمائندگان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور اب شروع ہو گیا ہے۔
ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں۔ اُن کے زیادہ تر مطالبات، جو عوامی مفاد میں… pic.
عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم میں وفاقی وزرا رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سردار یوسف اور امیر مقام، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی بھی اجلاس میں شریک ہے تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے شوکت نواز میر، راجا امجد ایڈووکیٹ اور انجم زمان شریک ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی
پڑھیں:
آزادی کشمیر ،حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مظفرآباد / اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے اعلان کیا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ معاملات تقریباَ طے پا گئے ہیں اور جلد ہی باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے ایکس پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ مذاکرات کا آخری دور جاری ہے اور مذاکراتی ٹیم عوامی مفاد اور خطے کے امن کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ذرائع کے مطابق
مظفرآباد میں اسمبلی مذاکراتی اجلاس میں حکومت کی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی نے دونوں جانب سے مطالبات، آئینی ترامیم، مہاجر نشستوں اور انتظامی اختیارات کے معاملات پر مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومتی ٹیم میں سینیٹر رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ، امیر مقام اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان شامل ہیں، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی میں شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ، انجم زمان اور دیگر نمائندے شریک رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر شہریت و مہاجر نشستوں کے معاملے میں اختلاف رہا، تاہم مذاکراتی عمل نے ڈھلاؤ دکھایا اور کشمیری عوام کے حساس حقوق پر غور و تفہیم کا ماحول قائم ہوا۔ طارق فضل چودھری نے مزید کہا کہ دیگر امور پر گفت و شنید جاری ہے اور اختلافی نکات کو نرم انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔قبل ازیں، 3 روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال اور مواصلاتی بلیک آؤٹ نے آزاد کشمیر کو معطل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات پر ڈٹی رہی، جبکہ حکومت نے مظاہرین کی مداخلت پر ذمہ داری ہونے کا الزام عائد کیا۔ حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی تھی۔ اس پس منظر میں مذاکرات کی کامیابی کو ایک مثبت پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ معاہدے کی دستاویزات پر دستخط کے موقع پر آئینی ترامیم کی تجاویز بھی شامل ہوں گی، خاص طور پر مہاجرین کی نشستوں کی تقسیم اور لیویز و انتظامی اختیارات کے توازن کے حوالے سے۔ طارق فضل چودھری نے اس موقع پر یہ واضح کیا کہ تشدد کو کسی بھی صورت میں حل نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ پرامن مکالمہ اور سیاسی حل کے ذریعے معاملات طے ہوں گے۔ مذاکراتی فورم پر لیے جانے والے فیصلے نہ صرف آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو مستحکم کریں گے، بلکہ وہاں رہنے والے کشمیری عوام کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لانے کی بنیاد فراہم کریں گے۔ اگر معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو یہ ایک تاریخی موڑ ہوگا جو پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دے سکتا ہے۔ کئی سیاسی حلقے توقع کر رہے ہیں کہ جمعہ یا ہفتے کے اندر معاہدے کی تقریب منعقد ہو سکتی ہے، جہاں دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے اور اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت دونوں نے بتایا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا تاکہ پارلیمنٹ، ریاستی ادارے اور کشمیر عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔