آزادی کشمیر ،حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مظفرآباد / اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے اعلان کیا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ معاملات تقریباَ طے پا گئے ہیں اور جلد ہی باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے ایکس پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ مذاکرات کا آخری دور جاری ہے اور مذاکراتی ٹیم عوامی مفاد اور خطے کے امن کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ذرائع کے مطابق
مظفرآباد میں اسمبلی مذاکراتی اجلاس میں حکومت کی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی نے دونوں جانب سے مطالبات، آئینی ترامیم، مہاجر نشستوں اور انتظامی اختیارات کے معاملات پر مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومتی ٹیم میں سینیٹر رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ، امیر مقام اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان شامل ہیں، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی میں شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ، انجم زمان اور دیگر نمائندے شریک رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر شہریت و مہاجر نشستوں کے معاملے میں اختلاف رہا، تاہم مذاکراتی عمل نے ڈھلاؤ دکھایا اور کشمیری عوام کے حساس حقوق پر غور و تفہیم کا ماحول قائم ہوا۔ طارق فضل چودھری نے مزید کہا کہ دیگر امور پر گفت و شنید جاری ہے اور اختلافی نکات کو نرم انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔قبل ازیں، 3 روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال اور مواصلاتی بلیک آؤٹ نے آزاد کشمیر کو معطل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات پر ڈٹی رہی، جبکہ حکومت نے مظاہرین کی مداخلت پر ذمہ داری ہونے کا الزام عائد کیا۔ حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی تھی۔ اس پس منظر میں مذاکرات کی کامیابی کو ایک مثبت پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ معاہدے کی دستاویزات پر دستخط کے موقع پر آئینی ترامیم کی تجاویز بھی شامل ہوں گی، خاص طور پر مہاجرین کی نشستوں کی تقسیم اور لیویز و انتظامی اختیارات کے توازن کے حوالے سے۔ طارق فضل چودھری نے اس موقع پر یہ واضح کیا کہ تشدد کو کسی بھی صورت میں حل نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ پرامن مکالمہ اور سیاسی حل کے ذریعے معاملات طے ہوں گے۔ مذاکراتی فورم پر لیے جانے والے فیصلے نہ صرف آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو مستحکم کریں گے، بلکہ وہاں رہنے والے کشمیری عوام کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لانے کی بنیاد فراہم کریں گے۔ اگر معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو یہ ایک تاریخی موڑ ہوگا جو پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دے سکتا ہے۔ کئی سیاسی حلقے توقع کر رہے ہیں کہ جمعہ یا ہفتے کے اندر معاہدے کی تقریب منعقد ہو سکتی ہے، جہاں دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے اور اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت دونوں نے بتایا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا تاکہ پارلیمنٹ، ریاستی ادارے اور کشمیر عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عوامی ایکشن کمیٹی
پڑھیں:
وکلاء ایکشن کمیٹی اجلاس، وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف
27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف سامنے آگیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں پہلے وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا بعد میں بائیکاٹ کو بار ایسوسی ایشنز کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی میزبانی میں آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی میٹنگ لاہور ہائیکورٹ بار کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک، سینئیر قانون دان اعتزاز احسن، حامد خان، لطیف کھوسہ، شفقت چوہان، اشتیاق اے خان، سابق جج لاہور ہائیکورٹ شاہد جمیل اور دیگر نے شرکت کی۔
میٹنگ کے دوران شرکا نے 27ویں آئینی کے خلاف لائحہ عمل بنانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں، صدر لاہور ہائیکورٹ بار آصف نسوانہ نے اعلان کیا کہ ہر جمعرات کو ارجنٹ کیسز کے بعد مکمل عدالتی بائیکاٹ ہوگا، جنرل ہاؤس اجلاس کے بعد ریلی نکالیں گے۔
آصف نسوانہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحریک صرف ہماری نہیں بلکہ ججز کی بھی ہے کیونکہ اس ترمیم سے سب سے زیادہ متاثر ججز ہوئے ہیں، لہٰذا امید کرتے ہیں کہ ججز بھی ہڑتال کی حمایت کریں گے۔ میٹنگ کے دوران حامد خان نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور وکلاء سے کہا کہ اس عدالت کا بائیکاٹ کیا جائے۔
تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن اور منیر اے ملک نے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ بالادست ہے لیکن میں کہتا ہوں آئین بالادست ہے۔
اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ جوڈیشری سے متعلق جو ایشو اٹھے اسے دبنے نہ دیا جائے، انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے یہ لمبی ریس ہے۔ ہمیں شروع میں ہی نہیں تھک جانا چاہیے۔
چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک نے بھی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کی، جس کے بعد وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے سے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی شق میں ترمیم کر کے اسے بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ انہیں قابل قبول نہیں تھے۔ وزیر قانون کے پاس نہ 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تھا نہ 27ویں ترمیم کا مسودہ تھا اس وقت آئین پر جو حملہ کیا گیا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی وفاقی آئینی عدالت کو مسترد کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودگی میں کسی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں اور موجودہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے۔