وہ اڑتیس چالیس سال کا لمبا چوڑا صحت مند شخص تھا، چہرے پر بالشت بھر کالی داڑھی ، سیاہ بال اور سفید رنگت، صاف ستھرے کپڑے۔
’’جی بتائیے!‘‘
’’سر جی! مجھے چکر بھی آتے ہیں اور الٹی بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
سر نے سر ہلایا اور چھوٹا سا کارڈ اس کی جانب بڑھایا اور ایک ٹوکن اسے فراہم کیا، جو اس بات کی علامت تھا کہ اسے اب ڈاکٹر سے ملنے کے لیے ٹوکن پر درج نمبر کا انتظار کرنا ہے۔
’’حیرت کی بات ہے ناں! کہیں سے لگتا تھا کہ اس شخص کو ٹی بی ہے۔‘‘
یہ جملہ حیران کن تھا۔ اتنا وجیہ اور صحت مند نظر آنے والا وہ شخص ٹی بی یعنی تپ دق میں مبتلا تھا۔
ایک زمانہ تھا تپ دق میں مبتلا مریضوں کو سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ ایک ایسے ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہیں جو انھیں صرف قبر تک ہی لے جائے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر ریسرچ ہوئی اور اس ناقابل علاج مرض کو قابل علاج بنا لیا گیا۔
آج ہمارے ملک میں ایسے مریضوں کی کمی نہیں جو تپ دق جیسی بیماریوں میں مبتلا نہ صرف اپنے گھر والوں میں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھی صرف آگاہی کے شعور سے نابلد ہونے کے باعث ایک سے دوسرے شخص میں ان جراثیم کو منتقل کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک لگنے والا مرض بھی ہے لہٰذا اس مرض میں مریض کے نہ صرف کھانے پینے کے معاملات میں خیال رکھنا ضروری ہے بلکہ دیگر اہم باتوں کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں معاشرتی نظام اور غربت کے ہاتھوں تنگ عوام اپنے مخصوص زندگی کے طرز عمل میں بندھے ہیں کوئی کیا سمجھے گا، کیا کہے گا جیسے مسائل میں الجھے خود ہی ان بیماری پر پردہ پوشی کرتے دوسرے صحت مند انسانوں کو مبتلا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
تپ دق کے متعلق ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق متعدی بیماری سے مرنے والوں کی سب سے بلند شرح تپ دق یعنی ٹی بی کی ہے جو دنیا میں موت کی نویں بڑی وجہ ہے۔ 2016 میں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چھپن فی صد لوگ اس متعدی مرض میں مبتلا ہیں جو انڈیا، چین، انڈونیشیا، فلپائن اور پاکستان میں رہ رہے ہیں۔
عمومی طور پر ٹی بی کے جراثیم انسان کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں اس کے علاوہ گردے، ہڈیاں اور لمف نوڈس کو متاثر کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بیماری کے جراثیم لیے پھرتے ہیں، ان میں یہ غیر فعال ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کا مدافعتی نظام کمزور پڑتا ہے یہ انسانی صحت پر حملہ آور ہوتے ہیں عام طور پر عمر کے بڑھنے کے ساتھ یا بڑھاپے میں یہ جراثیم تیزی سے اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس بیماری کے لیے آگاہی مہم چلتی رہتی ہے لیکن چوبیس مارچ کو عالمی طور پر اس کا دن منایا جاتا ہے، یہ دراصل ڈاکٹر رابرٹ کوچ کی اس عظیم کامیابی کی یاد کا دن ہے جب انھوں نے 1882 میں اس بیماری کا موجب بیکٹیریا کی دریافت کی تھی۔
’’میری عمر بارہ سال تھی جب مجھے آنتوں کی ٹی بی تشخیص ہوئی تھی، شام ہوتے ہی مجھے ہلکا سا ٹمپریچر ہو جاتا تھا اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا تھا، میں ایک سرکاری اسکول میں پڑھتی تھی، بے پروائی کے دن تھے حالاں کہ ہمارا گھر خوش حال تھا، کھانے پینے کی کوئی ٹینشن نہ تھی پھر بھی نجانے کیسے مجھے یہ مرض لگ گیا۔
مجھے موشن بھی آتے تھے تو ڈاکٹر نے مجھے ٹی بی کا ٹیسٹ کرانے کو کہا، میرا یہ ٹیسٹ کرایا گیا اور ثابت ہو گیا کہ مجھے یہ مرض ہے پھر میرا طویل علاج چلا، پھر میں نے ایک عام لڑکی کی مانند صحت مند زندگی گزاری۔ شادی ہوئی اور میری شادی کو بیس برس گزر گئے اولاد کی نعمت سے محروم ہوں کیونکہ ٹی بی کے جراثیم سرائیت کرتے گئے تھے۔‘‘
ہمارے ملک میں اس مرض کے پھیلاؤ کی وجہ غربت، بہت زیادہ قربت کے علاقے، ناقص غذائیت، منشیات کا استعمال، لوگوں میں مرض سے متعلق آگاہی کی کمی وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ کھاتے پیتے متوسط طبقے کے گھروں میں بہت زیادہ میل جول یعنی ایک دوسرے کے برتنوں میں کھانا پینا یا جھوٹا کھانا اور ہوا کے ذریعے بھی اس مرض کے جراثیم پھیل سکتے ہیں۔
اگر کسی کو دو ہفتوں سے زیادہ کھانسی ہو، وزن میں کمی محسوس ہو رہی ہو، خونی تھوک، بھوک کا کم ہو جانا وغیرہ کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس مرض کی تشخیص کو نظرانداز نہ کریں۔
اٹھارہویں صدی میں مشہور رومانوی شاعر جان کیٹس بھی اسی بیماری میں گھر کر مرا تھا۔ دراصل کیٹس کا بھائی ٹی بی کا شکار تھا، اس نے تو اپنے بھائی کی دیکھ بھال کی، اس کا خیال رکھا لیکن یہ متعدی مرض جان کیٹس کو بھی لگ گیا، ایک حساس دل رکھنے والا انسان جو پہلے اپنی محبت کی ناکامی کا شکار تھا، بھائی کی محبت، بیماری اور اپنی شکست پر ٹوٹ ہی گیا اور جوانی میں ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ بات ہے 1821 کی جب وہ صرف چھبیس سال کا تھا۔
پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں ٹی بی سے مرنے والے ہیرو کے منہ سے خون تھوکنے کے ڈرامائی مناظر تماشائیوں کے دل پر ایسے ثبت ہوتے تھے کہ انھوں نے اس مرض کو موت کا سوداگر سمجھ لیا تھا لیکن گزرتے وقت نے ان تمام اثرات کو زائل کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس بیماری کے جراثیم مزید مدافعت یعنی توانائی لے کر ابھرے ہیں، اس لیے اسے معمولی یا شک کا فائدہ دے کر نظرانداز کرنے کے بجائے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کا ٹیسٹ کروانا، ایکسرے کروانا ضروری ہے۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او نے بہت سے سرکاری اسپتالوں میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کی صحت مندی اور علاج کے لیے کافی مناسب اقدامات کیے ہیں ورنہ پرائیویٹ طور پر اس کا علاج خاصا مہنگا اور دقت طلب ہے، صرف ٹیسٹوں اور ایکس ریز میں ہی ہزاروں لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
ایسے مریضوں کو چاہیے کہ خصوصی طور پر علاج کے پہلے دو مہینوں میں عام لوگوں کے ملنے جلنے میں فاصلہ رکھیں کیونکہ اس وقت ایسے مریض دوسرے انسانوں میں ان جراثیم کو منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ سو میں سے اگر دس کے زندگی کارڈ میں رب العزت نے اس بیماری کا نام لکھ دیا ہے تو وہ اس سے لڑنے کے لیے تیار رہے، علاج کرے اور اپنے اعمال کی بہتری پر توجہ دے کہ آزمائش کے سزا بننے میں ذرا دیر ہی لگتی ہے دوستو!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے جراثیم میں مبتلا کے لیے
پڑھیں:
بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو پہلے سے بہتر علاج کریں گے: سکیورٹی ذرائع
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، اب آپریشن سندور جیسا کام کرنے کی کوشش کی تو ـسارے شکوے دور کردیں گےـ۔ ہم جانتے ہیں بھارت کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے، پہلے سے زیادہ بہتر علاج کیا جائے گا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق راج ناتھ سنگھ کریڈیبل نہیں، اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے، معرکہ حق کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی اخراجات بڑھا دیے ہیں، بھارت کون سا اسلحہ خرید رہا ہے اس کے بارے میں پاکستان کو اطلاع ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات 16 اکتوبر کو منعقد ہوں گے
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی فکر، کوئی تشویش نہیں، ہم ہر وقت جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ آزاد کشمیر کی صورتحال کے حل کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو جاتا ہے، آزاد کشمیر کا معاملہ یہاں تک نہیں پہنچنا چاہیے تھا، کشمیری بھائی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر پر پاکستان کا مؤقف بڑا واضح اور اٹل ہے، اسرائیل سے متعلق پاکستان کا مؤقف تبدیل نہیں ہو سکتا، غزہ میں ظلم و بربریت اور نسل کشی فوری طور پر روکی جائے۔
شاہدرہ : شوہر کا بیوی پر چھریوں سے حملہ، گلا کاٹنے کی کوشش
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہ معاہدہ معاشی اور اسٹریٹیجک بھی ہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق پسنی پورٹ اور دیگر منصوبوں کے لیے پروپوزل آئے ہیں، پاکستان نے اپنا فائدہ دیکھنا ہے، موجودہ صدی معدنیات کی صدی ہے، عالمی کمپنیاں پاکستان میں دھات اور منرلز کی دریافت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ بلوچستان میں اسمگلنگ پر قابو پایا گیا ہے اور لیگل طریقے سے ڈیزل امپورٹ ہوکر آرہا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔
اعجاز چودھری کی سزا کیخلاف اپیلیں 7 اکتوبر کوسماعت کے لئے مقرر
سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے، دہشت گروں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے، کسی بھی دہشت گردکے ساتھ ریاست مذاکرات نہیں کرے گی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغان حکومت کو متعدد بار دہشت گردوں کی نشان دہی کر چکے ہیں۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نیشنل ایکشن پلان کے تحت فرائض سرانجام دے رہی ہیں، اس سال 15ستمبر تک 1422 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے، سکیورٹی فوسز 57 ہزار سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر چکی ہیں، آپریشنز میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے 118 دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن نے آوارہ کتوں کیخلاف کارروائی کیلئے ہائیکورٹ سےرجوع کر لیا
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ جنرل فیض حمیدکے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے، کورٹ مارشل کے دوران تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے، یہ لمبا پراسس ہوتا ہے اور کیس میں ڈیفنڈنٹ کو تمام لیگل رائٹس دیے جاتے ہیں۔
سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ فوج کا کسی سیاسی جماعت سے رابطہ تھا نہ ہے، فوج کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہتی، مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں اور وہیں ہونے چاہئیں۔
فلی فنڈڈ سٹڈی پروگرام کیلئےذہین اورمستحق طلباء سے درخواستیں طلب
سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ 9 مئی کے کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔
Waseem Azmet