ایک اہم دستاویز ’’ نقوش جالبی‘‘
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
قابل احترام ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی شبانہ روز محنت اور لگن سے جو علم و ادب کے چراغ روشن کیے ہیں، ان کی روشنی ادب کے طالب علموں کے لیے مینارہ نور ثابت ہو رہی ہے اور ان کی تحریروں اور ادبی سرمائے سے وہ طلبہ اور ادب کے شائقین مستفید ہو رہے ہیں جو ادبی میدان کے شہ سوار ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے انھوں نے تعلیم و تعلم، تنقید نگاری، تراجم اپنی محققانہ صلاحیتوں کی بنا پر کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان کی زندگی علمی مدارج اور اعلیٰ عہدوں پر فرائض منصبی کی ادائیگی، ادب کی خدمات کے حوالے سے کتاب ’’ نقوش جالبی‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔
مفکرین اور اہل قلم نے ان کے علمی امور اجاگر کیا ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ 152 صفحات پر ان کی تنقیدی و تحقیقی تحریروں اور انھیں ملنے والے ایوارڈز اور تعلیمی اسناد کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کے صاحبزادے خاور جمیل نے آگاہ کیا ہے۔
اگر یہ کتاب میرے پاس نہ ہوتی تو میں بھی بہت سی معلومات سے آشنا نہ ہوتی، یہ کرم نوازی گلناز محمود کی ہے جنھوں نے لکھنے کی تحریک پیدا کی۔گلناز خود بھی ایک بہت اچھی شاعرہ اور استاد ہیں۔
انھوں نے نفاذ اردو تحریک کی بنیاد رکھی اور اردو کی ترقی کے لیے اعلیٰ سطح پر پروگرام کا انعقاد کیا، اس کے ساتھ ہی گلناز محمود نے ایک تنظیم اردو سندھی سنگت (اساس) کی بنیاد رکھی۔ ان کی انھی صلاحیتوں کی بدولت گلناز محمود کو ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری اور فاؤنڈیشن کی میڈیا اور پبلک ریلیشنز انچارج کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔
’’نقوش جالبی‘‘ کی اشاعت کا سہرا بھی ڈاکٹر خاور جمیل، گلناز محمود اور مجید رحمانی کے سر لگتا ہے۔ یقینا صاحبان علم و فن کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ کتاب میں 25 اہم قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی اہمیت اور علمیت کا ناقدین و مبصرین نے برملا اعتراف کیا ہے۔ جناب فتح محمد ملک نے اپنے مضمون میں لکھا ہے۔
’’جمیل جالبی صاحب کی علمی و ادبی فتوحات کا خیال کرتا ہوں تو مجھے ایک یگانہ روزگار ہستی نظر آتے ہیں، ایک ایسی ہستی جس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں، بہت ہلکی سی بات نظر آتی ہے۔
ادبی گروہ بندی کی تنگ نظر فضا میں خود کو انتہا پسندی اور ذاتی نمود و نمائش سے الگ تھلگ رکھ کر جمیل جالبی صاحب نے جس خاموشی اور استقلال کے ساتھ ہمارے ادبی ماضی تاریخ ادب کو زندہ کیا ہے اور ہمارے تہذیبی مستقبل (پاکستانی کلچر) کو تابناک دیکھنے کی تمنا کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔‘‘
ڈاکٹر جمیل جالبی کی جائے پیدائش علی گڑھ اور تاریخ ولادت 12 جون 1929 ہے۔ انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک اور میرٹھ کالج سے ایف اے کیا اور اسی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا تعلیمی سلسلہ چلتا رہا، اس طرح انھوں نے سندھ یونیورسٹی کراچی سے 1949 میں انگریزی میں ایم اے کیا اور اس کے بعد ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کی۔
1975 میں پی ایچ ڈی اور 1976 میں انھیں ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ وہ بہادر یار جنگ کے پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے اس کے بعد سی ایس ایس اور پھر شعبہ انکم ٹیکس میں خدمات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنی علمیت کی بنا پر وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی کے عہدے پر پہنچ گئے۔
ڈاکٹر صاحب نقاد، محقق، مترجم اور ادبی مورخ تھے، وہ اپنے علمی کارناموں کی بنیاد پر پاکستان و ہندوستان کے علاوہ دوسرے ان ملکوں میں بھی جہاں اردو بولی اور لکھی جاتی ہے اپنی خصوصی شناخت رکھتے ہیں انھیں یہ عزت و مرتبہ ان کی عالمانہ اور روز و شب کی کاوشوں نے عطا کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کا اوڑھنا بچھونا علم کی آبیاری اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے قدم قدم پر بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ 1987 میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے صدر نشین کے طور پر ان کی تقرری عمل میں آئی، اردو لغت بورڈ میں صدر کی حیثیت سے انھوں نے 1990 سے 1997 تک قابل ذکر ادبی امور انجام دیے۔
ان کے علمی کارناموں میں ایک کارنامہ ’’ قومی انگریزی اردو لغت‘‘ جسے معروف محقق ڈاکٹر جالبی نے مرتب کیا ہے۔ یہ لغت پاکستان میں اردو زبان کے فروغ کے لیے ایک بنیادی حوالہ بن چکی ہے اور علمی و ادبی حلقوں میں انتہائی مستند سمجھی جاتی ہے۔
( ڈاکٹر خاور جمیل کے مضمون سے)۔ ڈاکٹر خاور جمیل نے بہت مفصل اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہے اور ’’قومی انگریزی لغت‘‘ کے معیار اور اہمیت کے بارے میں اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔
گلناز محمود نے اپنے مضمون میں لائبریری کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل ریسرچ لائبریری کا قیام 2019 میں عمل میں آیا، زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔2019 سے 2025 تک 25 کتب شایع ہو چکی ہیں۔ کتب اور تحقیقی مقالہ جات کے علاوہ مکتوبات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
علم و ادب کے ضمن میں یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف ادبی و تحقیقی اداروں نے ایک ایوارڈ کا آغاز کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ایوارڈز کے ذریعے اردو ادب کو زندہ رکھنے اور محققین و مصنفین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی اردو خدمات کا تذکرہ و تحسین ممتاز حسین نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو زبان و ادب کی جو خدمت کی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ جاننے کی ہے جو کام ایک ادارے کے کرنے کا تھا، اسے انھوں نے تن تنہا انجام دے دیا ہے۔ میرا اشارہ ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کی تالیف کی طرف ہے، ان کی اس کوشش اور کارنامے کو جس قدر سراہا جائے وہ کم ہوگا۔‘‘
کالم لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بھی ڈاکٹر صاحب کی یادوں کے جگنو جھلملانے لگے ہیں، ان سے ہماری کئی بار ملاقات ہوئی، ان کے دولت کدے پر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی صدارت میں نظامت اور خطابت کا موقع بھی میسر آیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی زندگی کے مقصد کو ادبی وعملی خدمات کے لیے وقف کر دیا تھا، ان کے ادبی گلستان میں لگائے ہوئے تناور اشجار کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے، عجب آزاد مرد تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر جمیل جالبی کی ڈاکٹر جمیل جالبی نے گلناز محمود خاور جمیل انھوں نے اور اس کیا ہے ادب کے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی ضیاء القیوم مستعفی
ضیاء القیوم — فائل فوٹوہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ضیاء القیوم اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
انہوں نے اپنا استعفیٰ قائم مقام چیئرمین/ وفاقی سیکریٹری تعلیم کو ارسال کردیا ہے۔
یاد رہے کہ سابق چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ضیاء القیوم کے درمیان اربوں روپوں کے لیپ ٹاپ کی خریداری کے معاملے میں سنگین اختلافات ہو گئے تھے۔
اسلام آباد (غربی) کے سول جج کی جانب سے جاری عبوری حکم کی تعمیل میں، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے باضابطہ طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا چارج فوری طور پر دوبارہ سنبھال لیا ہے۔
بعدازاں سابق چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کمیشن کا اجلاس بلا کر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ضیاء القیوم کو فارغ کردیا تھا۔ تاہم ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ضیاء القیوم نے عدالت سے اسٹے لے لیا تھا۔
اس دوران ڈاکٹر مختار احمد کی مدت پوری ہوگئی اور لیپ ٹاپ کے معاملے پر ان کی بھی توسیع نہیں ہوئی جبکہ چیئرمین کے عہدے کا اضافی چارج وفاقی سیکریٹری تعلیم کو دے دیا گیا تھا۔