آئی ایم ایف کا پاکستان سے 11 ارب ڈالر کے تجارتی فرق کی وضاحت کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے گزشتہ 2 برس میں سامنے آنے والے تقریباً 11 ارب ڈالر کے تجارتی فرق پر وضاحت طلب کر لی ہے، جس نے حکومت کے معاشی نظم و نسق پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دوسرے ششماہی اقتصادی جائزہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستانی حکام سے تجارتی اعدادوشمار میں اس نمایاں فرق پر تفصیلی وضاحت مانگی ہے۔
رپورٹس کے مطابق مالی سال 2023-24 میں درآمدی و برآمدی ڈیٹا کے درمیان تقریباً 5.
یہ فرق خاص طور پر آٹومیشن سسٹم اور ’پاکستان سنگل ونڈو‘ کے اعدادوشمار میں نمایاں ہے، جہاں درآمدی ڈیٹا اور اسٹیٹ بینک یا ادارہ شماریات کے ریکارڈ میں ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ پرانے تجارتی ڈیٹا کو درست کریں اور شفافیت کے اصولوں کے تحت اسے عوامی سطح پر جاری کیا جائے۔ ادارے کے مطابق، غلط یا پرانے ڈیٹا کی بنیاد پر اقتصادی پالیسیوں کی منصوبہ بندی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو بریفنگ میں بتایا کہ ادارہ شماریات کا ڈیٹا سسٹم 2017 سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا، جس کے باعث غیرملکی درآمدات کی رپورٹنگ میں کمی ظاہر ہوئی۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ سب سے بڑا فرق ٹیکسٹائل سیکٹر میں 3 ارب ڈالر جب کہ دھاتوں اور صنعتی خام مال میں تقریباً ایک ارب ڈالر کا پایا گیا۔
ماہرین معاشیات کے مطابق اگر یہ اعدادوشمار درست کیے گئے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی معاشی نمو، برآمدات کے حجم اور تجارتی توازن پر پڑ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ اعتراض نہ صرف ڈیٹا شفافیت کا معاملہ ہے بلکہ مستقبل کے قرض پروگراموں کے تسلسل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے تجارتی ڈیٹا کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ آئندہ اس نوعیت کے تضادات سے بچا جا سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف ارب ڈالر کے مطابق
پڑھیں:
پاک ایران سرحد پر تجارتی آمدورفت بحال، مقامی معیشت میں نئی جان پڑنے کی توقع
پاک ایران سرحد پر واقع سوراب مند تجارتی پوائنٹ تقریباً 10 سال مسلسل بند رہنے کے بعد دوبارہ کھلنے والا ہے جس سے خطے میں معاشی بحالی اور دو طرفہ تجارت کو نئی جہت ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک ایران سیاسی مشاورت: تجارت سمیت اہم معاملات میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
ڈپٹی کمشنر کیچ میجر (ر) بشیر احمد بڑیچ کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے حالیہ دنوں ایرانی حکام سے ملاقات کی جس میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں اس اہم سرحدی پوائنٹ کو دوبارہ فعال کرنے پر اصولی اتفاق کیا گیا۔ سرحدی انتظامات کے جائزے کے لیے یکم دسمبر کو پلر نمبر 214 کا مشترکہ معائنہ بھی طے پایا ہے۔
سوراب مند بارڈر گیٹ بلوچستان کے ضلع کیچ اور ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔ مند کی تحصیل جس کی آبادی 50 ہزار سے زائد ہے بنیادی طور پر سرحدی تجارت پر انحصار کرتی ہے۔
بارڈر کے بند ہونے سے نہ صرف مقامی کاروبار متاثر ہوئے بلکہ روزگار کے مواقع بھی شدید حد تک محدود ہوگئے۔ کئی تاجر معاشی دباؤ کے باعث علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں یا ممالک کی طرف منتقل ہوئے۔
مزید پڑھیے: پاکستان اور ایران میں تجارتی تعاون کے نئے امکانات روشن
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر کیچ نے تاجروں اور مقامی نمائندوں سے مسلسل رابطے رکھے اور انہیں یقین دلایا کہ متفقہ سرحدی گیٹس کو جلد فعال کیا جائے گا۔
مقامی سطح پر اس اقدام کو معاشی بحالی کی جانب اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
مقامی انجمن تاجران کے سابق صدر حاجی کریم بخش نے بارڈر کی بندش کو علاقائی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ 10 سال سے زائد عرصے تک اس پوائنٹ کے غیر فعال رہنے سے ایرانی تیل کی ترسیل متاثر ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کئی کاروباری یونٹ بند ہوگئے اور بہت سے تاجر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
حاجی کریم بخش نے بتایا کہ ماضی میں دونوں ممالک نے اس کراسنگ پوائنٹ کے ذریعے مشترکہ تجارتی مارکیٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت پاکستان کی جانب مند میں نئی مارکیٹس بھی بنائی گئیں مگر بارڈر بند ہوجانے سے یہ منصوبے بے نتیجہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پوائنٹ سے پاکستان ایران کو چاول، تمباکو اور دیگر اشیا برآمد کرتا تھا جبکہ ایران سے پاکستان میں تیل، آٹا، سیمنٹ، لوہا اور مختلف تعمیراتی سامان درآمد ہوتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سوراب مند گیٹ دوبارہ کھلنے سے اشیائے خورونوش کی ترسیل سمیت دونوں اطراف کی تجارتی سرگرمیاں بہتر ہوں گی علاقہ معاشی طور پر مضبوط ہوگا اور روزگار بڑھے گا۔
مزید پڑھیں: پاک ایران 3 اہم معاہدے طے، تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
تاہم انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ سرحدی تجارت سے متعلق فیصلوں میں مقامی تاجروں کو باضابطہ شامل نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں بارڈر کھلنے کے باوجود کئی انتظامی چیلنجز برقرار رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سوراب مند تجارتی پوائنٹ کی بحالی کا فیصلہ نہ صرف مقامی سطح پر معیشت کے لیے اہم ہے بلکہ پاکستان ایران دو طرفہ تجارت میں بھی نئی روانی پیدا کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تجارتی پہلو نسبتاً کمزور رہا ہے ایسے میں سرحدی کراسنگ پوائنٹس کا فعال ہونا باہمی اعتماد سازی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
علاقائی سطح پر یہ فیصلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بلوچستان کے سرحدی اضلاع کی بڑی آبادی کاروبار اور روزگار کے لیے انہی پوائنٹس پر انحصار کرتی ہے۔
تجارت کی بحالی سے نہ صرف تیل اور بنیادی اشیائے خورونوش کی ترسیل بہتر ہوگی بلکہ غیر رسمی تجارت کے حجم میں کمی اور باقاعدہ تجارت میں اضافہ بھی متوقع ہے۔
مزید برآں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ سے ایران کے ساتھ قانونی تجارت بڑھے گی جس سے حکومتی محصولات میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
ایران کی جانب سے بھی اس پوائنٹ کے کھلنے کی رضامندی ظاہر کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک سرحدی علاقوں میں معاشی تعاون کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ایران اور پاکستان کا 10 ارب ڈالر سالانہ تجارتی ہدف، کئی ایم او یوز پر دستخط، شہباز شریف و مسعود پزشکیان کی مشترکہ پریس کانفرنس
10 سال کی بندش کے بعد سوراب مند بارڈر کا دوبارہ کھلنا نہ صرف کیچ اور مند کے لیے خوشخبری ہے بلکہ یہ خطے میں معاشی ترقی اور استحکام کا نیا باب ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم مقامی تاجروں کی شمولیت، انتظامی شفافیت اور دونوں ممالک کے درمیان رابطہ کاری میں بہتری ایسے عوامل ہیں جو اس کامیابی کو پائیدار بنا سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک ایران تجارت پاک ایران سرحد سوراب بند بارڈر