فلسطینی ریاست کے قیام سے چیزیں درست ہوں گی، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے چیزیں درست ہوں گی۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے امید کی کرن نظر آئی ہے، توقع ہے حالات بہتر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ سے متعلق معاملات کی حتمی شکل ایک دو دن میں واضح ہوجائے گی، اہل فلسطین کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ جب فلسطین کی ریاست قائم ہوگی تو یہ چیزیں درست ہوں گی، اقوام عالم کی تاریخ میں فلسطینیوں جتنی قربانیاں کسی نے نہیں دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جاری احتجاج سے پیغام دیا جارہا ہے کہ آزاد فلسطین کا قیام ضروری ہے۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے ایک ایڈونچر کیا تھا اور ذلت اٹھائی، پاکستان نے جنگ کی پہلی قسط میں کامیابی حاصل کی۔ بھارت اگر دوبارہ کوئی ایڈونچر کرے گا تو اسے ذلت کا ہی سامنا کرنا پڑے گا، کسی بھی جگہ اور موقع پر بھارت کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ بھارت اگر دوبارہ کچھ کرے گا تو زیادہ رسوا ہو گا، رن آف کچھ پر ہم نے 6 دہائیاں قبل معرکہ جیتا تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق برطانوی وزیر خارجہ پے پرپوتے نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے سابق وزیرِخارجہ آرتھر بالفور کے پڑپوتے لارڈ روڈریک بالفور نے کہا ہے کہ1917 کا بالفور ڈیکلریشن صرف یہودیوں کیلئے "قومی وطن" کے قیام پر ہمدردی ظاہر کرتا تھا، لیکن اس میں کہیں بھی اسرائیل جیسی ریاست بنانے کا ذکر نہیں تھا۔ العربیہ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ڈیکلریشن کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ "اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ حکومتِ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کی حامی ہے، لیکن اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کہیں نہیں، یہ صرف ہمدردی کا اظہار تھا، بس۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ڈیکلریشن کی وہ شرط اکثر نظرانداز کی جاتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین میں موجود غیر یہودی برادری کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق جو کچھ آج ہو رہا ہے، وہ اُس وقت کے برطانوی موقف کے مطابق نہیں۔ لارڈ بالفورکا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ان کے خاندان میں کبھی زیادہ بات نہیں ہوئی، مگر وہ اپنے خاندانی نام کی وجہ سے وضاحت کیلئے سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُس دور میں فلسطینی آبادی کو مظلوم یا مظلومیت زدہ نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے چند یہودیوں کے پرامن طور پر آ کر بسنے میں کسی مسئلے کی توقع نہیں کی گئی۔ برطانیہ کے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ علامتی لیکن اہم قدم ہے، مگر اصل حل دو ریاستی فارمولے میں ہے، جس کیلئے علاقائی تعاون اور بڑی طاقتوں کی ضمانت درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن کو جیسے لکھا گیا، ویسے ہی سمجھنا چاہیے، اور یہ افسوس کی بات ہے کہ فلسطینی اور یہودی مل کر ایک مضبوط معیشت قائم نہیں کر سکے۔