data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251008-08-25
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کے 50 سے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرون ملک جا رہے ہیں۔ سینیٹر انوشہ رحمن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں بتایا کہ پاکستان میں تربیت پانے والے ڈاکٹرز کی بڑی تعداد ملک میں خدمات دینے کے بجائے غیر ممالک میں روزگار کو ترجیح دے رہی ہے اور پاکستان کے50 سے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں‘ سب سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹرز آئرلینڈ جا رہے ہیں، جہاں انہیں 5 ہزار یورو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے‘ ڈاکٹرز کی ہجرت ملکی صحت کے نظام کے لیے خطرہ بن چکی ہے، اور اس سے سرکاری اسپتالوں میں عملے کی شدید کمی پیدا ہو رہی ہے۔وفاقی وزیرِ صحت مصطفی کمال نے اجلاس میں بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 22 ہزار ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں لیکن 25 کروڑ آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد ناکافی ہے‘ خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتی، جس سے ہیلتھ سیکٹر میں دستیاب ماہر عملہ مزید کم ہو جاتا ہے۔ وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹرز کی ہجرت اور عدم دستیابی صحت کے شعبے کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جا رہے ہیں اجلاس میں ڈاکٹرز کی صحت کے

پڑھیں:

حکومت نے 11 ویں نیشنل فنانس کمیشن کا افتتاحی اجلاس 4 دسمبر کو طلب کرلیا

بار بار کی تاریخوں کی تبدیلی کے بعد وفاقی حکومت نے 11ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا افتتاحی اجلاس 4 دسمبر کو طلب کر لیا ہے، تاکہ افقی اور عمودی وسائل کی تقسیم سے متعلق تکنیکی، مالی اور قانونی مباحث پر آئندہ بات چیت کے لیے بنیادی طریقہ کار طے کیا جا سکے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبوں کو بھیجے گئے نوٹسز کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ہونے والے اس پہلے اجلاس میں 3 نکاتی ایجنڈا زیر غور آئے گا۔

اجلاس کا آغاز اس عمومی بحث سے ہوگا کہ موضوعاتی شعبوں پر غور کے لیے ذیلی گروپس کی تشکیل وغیرہ کے علاوہ 11ویں این ایف سی ایوارڈ پر غور کے لیے حکمتِ عملی کیا ہو۔

اس کے بعد چاروں صوبائی حکومتوں اور وزارتِ خزانہ کی جانب سے اپنی اپنی مالی صورتحال پر 10، 10 منٹ کی پریزنٹیشنز ہوں گی، آخر میں کمیشن آئندہ این ایف سی اجلاسوں کے لیے شیڈول اور وقت کا تعین کرے گا، جو غالب امکان ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں ہوں گے، یہاں تک کہ کمیشن اپنی مشاورت مکمل کر لے۔

ذرائع نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ وزارتِ خزانہ نے اس سے پہلے 3 دسمبر کو اجلاس بلانے کے نوٹس صوبوں کو ایجنڈے سمیت بھجوائے تھے، مگر اسی روز تاریخ بدل کر 4 دسمبر کر دی گئی تھی۔

11واں این ایف سی 22 اگست کو تشکیل دیا گیا تھا، تاکہ وفاقی قابلِ تقسیم محاصل کی تقسیم کے لیے ایک نیا ایوارڈ طے کیا جا سکے۔

پہلا اجلاس اصل میں 27 اگست کے لیے رکھا گیا تھا، پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر 29 اگست تک مؤخر کر دیا گیا تھا، یہ اجلاس بھی سندھ حکومت کی سیلاب سے متعلق مصروفیات کے سبب مزید ملتوی ہوا تھا، بعد ازاں اجلاس 17 نومبر، پھر 18 نومبر کے لیے طے ہوا، لیکن وزیر اعظم آفس کی خواہش پر دوبارہ مؤخر کر دیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ اورنگزیب کی سربراہی میں این ایف سی میں چاروں صوبائی وزرائے خزانہ اور 4 غیر سرکاری ارکان (ہر صوبے سے ایک) شامل ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 160 کی شق 2 میں دیے گئے ضابطہ کار کے مطابق، کمیشن 5 بڑی ٹیکس کیٹیگریز سے حاصل ہونے والی خالص آمدنی کی وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم پر سفارشات مرتب کرے گا، ان کیٹیگریز میں انکم ٹیکس شامل ہے، جس میں کیپیٹل ویلیو ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس شامل ہیں، لیکن وفاقی مجموعی فنڈ سے ادا ہونے والی تنخواہوں پر عائد ٹیکس اس سے مستثنیٰ ہے۔

فہرست میں ان ٹیکسوں کی مد بھی شامل ہے جو درآمد شدہ، برآمد شدہ، تیار کردہ، فروخت شدہ یا استعمال شدہ اشیا پر لاگو ہوتے ہیں، کپاس اور دیگر برآمدی ڈیوٹی جو صدر بتائیں، ایکسائز ڈیوٹی، اور کوئی دیگر ٹیکس جسے صدر مقرر کریں۔

نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو دی جانے والی مالی معاونت (گرانٹس) پر بھی سفارشات مرتب کی جائیں۔

نیا این ایف سی ان امور کا بھی جائزہ لے گا کہ صوبائی دائرہ اختیار کے معاملات پر وفاق نے جو اخراجات کیے ہیں یا کرنے ہیں، ان کا بوجھ کس طرح تقسیم ہو، سرحد پار یا بین الصوبائی معاملات پر اخراجات کی ذمہ داری کیسے تقسیم کی جائے، اور قومی نوعیت کے منصوبوں کے لیے مالی ضرورت کیسے پوری کی جائے جو وفاق اور صوبے مشترکہ طور پر فنڈ کریں گے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجاویز کے مطابق، وفاق چاہتا ہے کہ قدرتی آفات، افقی نوعیت کے صحت پروگرامز، بڑے ڈیموں، شاہراہوں اور موٹرویز کے اخراجات میں صوبے بھی اپنا حصہ ڈالیں۔

وفاق یہ بھی چاہتا ہے کہ موجودہ آبادی پر مبنی فارمولے کو ختم کیا جائے اور اس کی جگہ سماجی شعبے کی کارکردگی اور مقامی حکومتوں کی فعالیت کو معیار بنایا جائے۔

این ایف سی وفاق کی طرف سے صوبوں کو دی جانے والی گرانٹس، وفاق اور صوبوں کے قرض لینے کے اصول اور شرائط، اور آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) کے حکومتی اخراجات کے لیے وسائل کی فراہمی پر بھی سفارشات دے گا۔

2009 میں جاری ہونے والے 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ قابلِ تقسیم محاصل میں 47 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا گیا تھا۔ بعد میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے لیے خصوصی اضافوں کے بعد یہ حصہ مزید بڑھ کر تقریباً 59 فیصد ہو گیا، یوں وفاق کا حصہ گھٹ کر 42.5 فیصد رہ گیا۔

بعد کے برسوں میں، تاہم وفاق نے تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے پیٹرولیم لیوی نافذ کی اور صوبوں سے تقریباً اتنی ہی رقم نقد بیلنس کی مد میں حاصل کی، جس سے مالی توازن دوبارہ وفاق کے حق میں جھک گیا۔

صوبے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کر سکے کہ وہ ہر سال اپنی آمدنی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد بڑھائیں، اسی طرح وفاق بھی اپنی آمدنی کو سالانہ جی ڈی پی کا ایک فیصد بڑھانے کا وعدہ پورا نہ کر سکا۔

موجودہ سال کے لیے وفاقی حکومت پہلے ہی اپنی معاشی شرحِ نمو کی پیشگوئی 0.7 فیصد کم کر چکی ہے، جس کی وجہ سیلاب سے ہونے والا نقصان بتایا گیا ہے۔

متعدد حلقے، بشمول وزارتِ خزانہ، مسلح افواج اور آئی ایم ایف، بارہا زور دے رہے ہیں کہ قابلِ تقسیم محاصل کا بڑا حصہ وفاق کو ملنے کے لیے توازن دوبارہ مرتب کیا جائے۔

تاہم آئین کے مطابق صوبوں کے حصے کسی بھی این ایف سی ایوارڈ میں کم نہیں کیے جا سکتے، ایوارڈ کا اجرا پانچوں فریقین (وفاق اور چاروں صوبوں) کی باہمی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔

صوبوں کو ان کے حصے آبادی، غربت، آمدنی کی پیداوار اور الٹی آبادی کی بنیاد پر ملتے ہیں، موجودہ فارمولے کے مطابق پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبر پختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد حصہ ملتا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف این ایف سی کے باضابطہ اجلاس سے قبل اہم اتحادیوں کی سیاسی قیادت سے مشاورت کریں گے، اگرچہ کمیشن میں ان کا کوئی باقاعدہ کردار نہیں۔

این ایف سی کے اصولوں میں تبدیلی کا معاملہ اصل میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کا حصہ تھا، جس کے تحت وفاق صوبوں کے حصے کم کرنا چاہتا تھا اور کچھ منتقل شدہ اختیارات (جیسے تعلیم اور آبادی) واپس لینا چاہتا تھا۔

تاہم بعد میں وفاقی حکومت نے اپنی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے تحت اس مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہوئے توجہ مسلح افواج اور عدلیہ سے متعلق ترامیم کی طرف مبذول کر دی تھی۔

اس کے باوجود وزیر اعظم این ایف سی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت نے 11 ویں نیشنل فنانس کمیشن کا افتتاحی اجلاس 4 دسمبر کو طلب کرلیا
  • اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف صنعتی ترقی پر قائم نجی شعبے کی کمیٹی کے پہلے جائزہ اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • جامشورو: وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اربیلا بھٹو سنڈیکیٹ کے چھٹے اجلاس کی صدار ت کررہی ہیں
  • چاند نظر نہیں آیا، یکم جمادی الثانی اتوار کو ہو گی
  • کالعدم ٹی ٹی پی، پاکستان پر سرحد پار سے بڑے حملے کر رہی ہے، ساندرا جینسن
  • اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ ملازمین و سول سوسائٹی کا مشترکہ اجلاس
  • کراچی سے 17 سالہ جعلی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے: خالد مقبول صدیقی
  • کراچی سے 17 سالہ جعلی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے، خالد مقبول
  • برطانیہ : سال بھر میں ڈھائی لاکھ سے زاید شہری بیرون ملک منتقل
  • سلامتی کونسل کی قرارداد فلسطینی عوام کے خلاف سازش ہے‘ڈاکٹر صابر