وزیراعلیٰ کے پی کو جس طرح ہٹایا گیا، وہ صرف بادشاہت میں ممکن ہے: اکبر ایس بابر
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی کو جس طرح ہٹایا گیا، وہ صرف بادشاہت میں ممکن ہے، یہ جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں بانی چیئرمین کی کوئی قانونی حیثیت یا اختیار نہیں، وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا۔
گزشتہ روز علی امین گنڈاپور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی میں کوئی عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی گئی، نہ ووٹنگ ہوئی، نئے پارلیمانی لیڈر کے انتخاب کے لیے پارلیمانی پارٹی کا کسی قسم کا انتخابی عمل نہیں ہوا۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ منتخب وزیراعلیٰ تو چھوڑیں، چپڑاسی کو فارغ کرنے کا بھی کوئی قانونی طریقہ کار ہوتا ہے، جس انداز میں وزیراعلیٰ کو فارغ کر کے نیا نامزد کیا گیا وہ کسی بھی جمہوریت میں ممکن نہیں
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہوگئی، گلبر خان
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اڑھائی سالہ دور اقتدار میں گلگت بلتستان کے ایسے دیرینہ اور بڑے مسائل جو سابق حکومتیں حل کرنے میں ناکام ہوئیں، ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ اڑھائی سالہ دور اقتدار میں گلگت بلتستان کے ایسے دیرینہ اور بڑے مسائل جو سابق حکومتیں حل کرنے میں ناکام ہوئیں، ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیئے ہیں، ہم اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے فارغ ہو رہے ہیں اور جس طرح محشر میں ہم نے حساب دینا ہے، اسی طرح ہم نے عوام کو حساب دینا ہے۔ انہوں نے اسمبلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کا مسئلہ گذشتہ 15 سالوں سے چل رہا تھا، ہم نے اس مسئلے کو حل کر دیا اور لینڈ ریفارم ایکٹ کے تحت سب سے چھوٹے گاؤں کے لوگوں کو بھی اربوں کھربوں کا فائدہ ہوگا۔ گذشتہ ستر سالوں سے عوام اپنی جائیداد کے مالک نہیں تھے، ہم نے تاریخ میں پہلی بار عوام کو ان کی جائیداد کا مالک بنا دیا، اسی طرح گندم کا مسئلہ ہر سال کھڑا ہوتا تھا اور سالانہ گندم کے مسئلے پر ہر حکومت میں احتجاج ہوتا تھا، جو بھی حکومت اقتدار ہوتی تو گندم کا مسئلہ سامنے ہوتا تھا، ہم نے دو ماہ عوام کے درمیان بیٹھ کر گندم کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کر دیا اور 12 لاکھ بوری گندم کے کوٹے کو اضافہ کرکے پندرہ لاکھ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ خالد خورشید کے دور حکومت میں گندم سبسڈی کی مد میں ساڑھے 9 ارب روپے ملتے تھے، اب 20 ارب روپے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف گندم کے کوٹے میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اسے سسٹم میں بھی لائے ہیں اور گندم مافیا کے تمام تر دبائو کے باوجود تمام سسٹم کو ڈیجیٹل کرکے گندم کی چوری کو روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سوست میں تاجروں کا مسئلہ بھی کافی عرصے سے چل رہا تھا، اس مسئلے کو بھی ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیا۔ ایک لحاظ سے ہم نے علاقے کو ٹیکس فری زون قرار دلوایا، 4 ارب کے ٹیکس فری کا مطلب یہ ہے کہ ہم سالانہ (30) تیس ارب تک کا سامان چین سے گلگت بلتستان لا سکتے ہیں۔ اس سے غریب لوگوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کا مسئلہ 15 سالوں سے حل طلب تھا، اسے بھی ہم نے حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 5 سال کے عرصے میں ہم نے جو ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں، وہ گذشتہ دس سال کے عرصے میں بھی کسی نے نہیں دیئے۔
انہوں نے کہا کہ 2010ء میں جب میں وزیر صحت تھا تو ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت کا دورہ کیا تو اس وقت وہاں کل 9 ڈاکٹر تھے، آج ایک ایک شعبے میں نو، نو ڈاکٹر ہیں۔ وزہر اعلیٰ گلگت بلتستان نے مزید کہا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں اور آزاد کشمیر میں حکومتیں تبدیل کرنے کیلئے جو کچھ ہوتا ہے، وہ اب تک گلگت بلتستان میں نہیں ہوا۔ پہلے دن سے خالد خورشید کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئی تھیں اور اس وقت کابینہ کے ممبران کو خریدنے کیلئے کروڑوں روپے کی آفر کی گئی، مگر اس کے باوجود ہمارے غریب ممبران نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ یہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے فخر کی بات ہے۔ جب خالد خورشید کی ڈگری جعلی نکلی تو یہاں پر کسی نہ کسی نے وزیراعلیٰ بننا تھا۔ اس وقت خالد خورشید مشاورت کرتے تو تحریک انصاف تقسیم نہ ہوتی، مگر خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہوگئی ہے۔