Islam Times:
2025-11-24@01:20:46 GMT

غزہ فلسطین ہے اور فلسطین کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

غزہ فلسطین ہے اور فلسطین کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔

اسلام ٹائمز: یورپ کے انسانوں نے انسانی تاریخ کے بڑے اجتماعات کیے، اس موقع پر ان انسان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ ان دو سالوں میں یورپ کے 25 ممالک کے 793 شہروں میں فلسطین کی حمایت میں 45,000 سے زائد مظاہرے اور تقاریب منعقد ہوئیں۔ سب سے زیادہ مظاہرے اٹلی (7643)، جرمنی (6918)، اسپین (5886)، فرانس (5253) اور ہالینڈ (3301) میں ہوئے۔ دیگر ممالک میں سویڈن (3112)، ڈنمارک (3244)، بلجیم (2252)، سوئٹزرلینڈ (1561) اور آسٹریا (1745) شامل ہیں۔ مشرقی یورپی اور دیگر ممالک جیسے یونان، ناروے، پولینڈ، پرتگال، سربیا اور فن لینڈ میں بھی سینکڑوں مظاہرے ہوئے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ وقفہ ہے، جنگ اگلی جنگ تک رک گئی ہے۔ جب تک تمام فلسطینیوں کی گھر واپسی نہیں ہوتی، تب غزہ کی جنگ جاری ہے۔ دریا سے سمندر تک فلسطین ہوگا اور اس فلسطین میں تمام مذاہب کے فلسطینی مل جل کر رہیں گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ظلم، جبر، بربریت، نسل کشی، قحط، عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کا انہدام غرض اکیسویں صدی میں جو جو ظلم آپ سوچ سکتے ہیں، وہ سب اسرائیل نے کیے۔ اس تمام عرصے میں یورپ اور امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے بلکہ عملی طور پر ہر اس اقدام کے سامنے آئے، جو اسرائیل کو اس کی حد میں رکھنے اور علاقائی استحکام برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آپریشن وعد الصادق کے نام سے اس ظلم و بربریت کے خلاف دو بار کارروائی کی۔آپ اس کی مکمل تفاصیل دیکھ لیں۔ یورپ، امریکہ اور اس کی مقامی کٹھ پتلیوں نے  مل کر پوری طاقت اسرائیل کی حفاظت کے لیے  استعمال کی۔ یہ اسلامی جمہوری کی میزائل ٹیکنالوجی کی طاقت تھی کہ جس نے حیفہ اور تل ابیت میں اتنی گرمی پیدا کر دی کہ اس کی تپش واشنگٹن تک محسوس کی جانے لگی۔ امریکہ اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں آیا اور قطر میں اپنے بیسز پر حملہ کروا بیٹھا۔

صدر ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز آیا ہوا ہے اور بڑا زور کا آیا ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر صورت میں اس سال نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرے۔ اس نے تو باقاعدہ دھمکی آمیز زبان کا استعمال بھی کیا ہے کہ اسی کو ہی نوبل پرائز ملنا چاہیئے۔ یہ نوبل پرائز کمیٹی کے اخلاقی معیار پر بھی سوال ہوگا کہ وہ ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز دے۔ وہ شخص جو غزہ کی نسل کشی میں براہ راست شریک ہے، اسے کسی صورت میں یہ اہم انعام نہیں دیا جانا چاہیئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اسے کہا گیا ہوگا کہ جب تک غزہ جنگ جاری ہے، تب تک تمہیں یہ انعام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے اس نے مکمل اہتمام کیا اور ہر جگہ یہ ڈیڈ لائن دی کہ ہر صورت میں جمعہ تک غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات مکمل کیے جائیں، تاکہ جب جمعہ کو نوبل پرائز کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے تو اس وقت یہ خوش کن مناظر ٹی وی دکھائے جا رہے ہوں کہ غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔

میڈیا بتا رہا ہے کہ ٹرمپ خود شرم الشیخ میں حتمی ڈیل کے لیے پہنچ رہا ہے۔ ویسے یہ شرم الشیخ ہمیشہ سے فلسطینی جدو جہد کی خرید و فروخت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے فلسطینیوں کو جھوٹے وعدوں اور جبری بے دخلیوں کے سوا کبھی کچھ نہیں ملا۔ دوستو، ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ امن طاقت کا نتیجہ ہے، کمزور کو صرف غلامی کرنا ہوتی ہے۔ آج غزہ کے ہزاروں مجاہدوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ غزہ اور فلسطینی ریاست کی بات ہو رہی ہے۔ ابراہیم اکارڈ کے نام پر پورے غزہ اور فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہڑپ کرنے کا پروگرام تھا۔ مجاہدین کی قربانیوں نے استعماری منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ غزہ کی عظیم قربانیاں ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ پورا امریکہ، یورپ اور اس کے مقامی پٹھو بھی آپ کے خلاف ہوں اور آپ مکمل اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تیاری کریں تو فتح و نصرت آپ کے قدموں میں ہوتی ہے۔

یاد رکھیں کہ مزاحمت کے لیے باقی رہنا ہی فتح ہوتی ہے۔ خود کو عقل ِکل سمجھنے والے قوموں کی تاریخ سے آشنا نہیں ہیں۔ آج نہیں تو کل حالات نے پلٹا کھانا ہے اور طاقت کے توازن بدلنے ہیں۔ یہ غیر فطری ریاست ہے، آج نہیں کل یہ ختم ہو جائے گی۔ مقامی مسلمان، یہودی اور مسیحی مل جل کر رہیں گے اور یہ سب فلسطین ہوگا۔ کل تک نیتن یاہو فرعونوں کے لہجے میں بول رہا تھا کہ حماس پر مکمل فتح حاصل کریں گے، غزہ کو کسی ملکیتی پلاٹ کی طرح ایک سیرگاہ بنائیں گے اور اس کے لیے سرمایہ کاروں تک کا انتظام  کر لیا گیا تھا۔ آپ کو ٹرمپ کی وہ ویڈیو ضرور یاد ہوگی، جس میں غزہ کو ایک ریزورٹ اور ٹرمپ و نتین یاہو کو یہاں انجوائے کرتے دکھایا گیا تھا۔ آج سب مذاکرات پر مجبور ہوئے، ایک بار نہیں بار بار مجبور ہوئے۔

دنیا کا اجتماعی ضمیر حکومتوں سے ہٹ کر ہوتا ہے اور اس کے اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وقت تک عوام کی اجتماعی دانش پر میڈیا اور پروپیگنڈا کا پردہ ڈالا جا سکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ تمام غزہ برباد کرنے اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے کسی قیدی کو چھڑا نہیں سکا۔ حماس جب چاہتی ہے، جیسے چاہتی ہے، کارروائیاں کرتی ہے اور  اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے۔ سات اکتوبر کو راکٹ برسا کر بتا دیا کہ ہم زمین پر موجود ہیں اور تمہارے تو بہت ہی قریب موجود ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق موجود معاہدے کے تحت تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں 20 قیدیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ تمام زندہ بچ جانے والے قیدیوں کو ایک ساتھ ممکنہ طور پر اتوار تک رہا کر دیا جائے گا جبکہ ہلاک ہونے والے 28 قیدیوں  کی باقیات مرحلہ وار واپس کی جائیں گی

معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی افواج غزہ کے کچھ علاقے سے انخلا کریں گی اور علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھائی جائے گی۔ مکمل جنگ بندی پر مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔ اسرائیل ناقابل اعتبار ریاست ہے، یہ اپنے معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ موجودہ معاہدہ کتنے دن چلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ امریکہ اور مغرب کی حکومتوں کی پالیسی واضح تھی کہ یہ اسرائیلی نسل کشی میں حصے دار ہیں، مگر یورپ کی عوام نے کمال کی مزاحمت کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس شعور کی ہمارے مسلمان معاشروں میں بڑی ضرورت ہے۔ لوگوں کو انسانی حقوق اور دیگر نعروں پر بہت حساس کیا گیا تھا، مگر یہ سب کچھ تو اس فرضیہ کی بنیاد پر تھا کہ انسان سے مراد صرف سفید فام ہیں۔

یورپ کے انسانوں نے انسانی تاریخ کے بڑے اجتماعات کیے، اس موقع پر ان انسان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ ان دو سالوں میں یورپ کے 25 ممالک کے 793 شہروں میں فلسطین کی حمایت میں 45,000 سے زائد مظاہرے اور تقاریب منعقد ہوئیں۔ سب سے زیادہ مظاہرے اٹلی (7643)، جرمنی (6918)، اسپین (5886)، فرانس (5253) اور ہالینڈ (3301) میں ہوئے۔ دیگر ممالک میں سویڈن (3112)، ڈنمارک (3244)، بلجیم (2252)، سوئٹزرلینڈ (1561) اور آسٹریا (1745) شامل ہیں۔ مشرقی یورپی اور دیگر ممالک جیسے یونان، ناروے، پولینڈ، پرتگال، سربیا اور فن لینڈ میں بھی سینکڑوں مظاہرے ہوئے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ وقفہ ہے، جنگ  اگلی جنگ تک رک گئی ہے۔ جب تک تمام فلسطینیوں کی گھر واپسی نہیں ہوتی، تب غزہ کی جنگ جاری ہے۔ دریا سے سمندر تک فلسطین ہوگا اور اس فلسطین میں تمام مذاہب کے فلسطینی مل جل کر رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دیگر ممالک گیا تھا یورپ کے میں یہ غزہ کی اور اس کے لیے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

جی 20 سربراہ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ، فلسطین، سوڈان، یوکرین، کانگو تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ

جی 20 سربراہ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ، فلسطین، سوڈان، یوکرین، کانگو تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 November, 2025 سب نیوز

ڈربن(آئی پی ایس )جنوبی افریقا میں ہونے والے جی 20 کے سربراہ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں فلسطین، سوڈان، یوکرین اور کانگو تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ عالمی تنازعات اقوامِ متحدہ کے منشور کے مطابق حل ہونے چاہئیں۔اعلامیے کے مطابق اجلاس میں عالمی تنازعات کے منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق جی 20 سربراہ اجلاس میں اہم معدنیات کی سپلائی جغرافیائی سیاسی کشیدگی سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے جی 20 سربراہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق جی 20 سربراہ اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دیگرعالمی رہنما شریک ہوئے۔غیر ملکی خبر ایجنسی نے بتایا ہے کہ رواں برس جی 20 اجلاس کی تھیم یکجہتی، مساوات اور پائیداری ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجو بھی ہمارے جوانوں کو شہید کرتا ہے وہ دہشتگرد ہے، انکے خاتمے کے سوا کوئی آپشن نہیں: سہیل آفریدی جو بھی ہمارے جوانوں کو شہید کرتا ہے وہ دہشتگرد ہے، انکے خاتمے کے سوا کوئی آپشن نہیں: سہیل آفریدی پاکستان میں نئی انٹرنیٹ کیبل بچھا دی گئی، کنیکٹیویٹی میں بہتری آئے گی ہائیکورٹس میں تعینات ایڈیشنل ججوں کی مستقلی کیلئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب دبئی ائیر شو: بھارتی طیارہ حادثے میں فلائنگ رولز کی خلاف ورزی کے امکان کی تحقیقات جاری اپوزیشن اتحاد کا آئی ایم ایف رپورٹ میں سامنے آنے والی معاشی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز، پاکستان نے سری لنکا کو 7 وکٹ سے ہرادیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • سعودی ولی عہد کا دورہ امریکا ، F35اور فلسطین
  • اے، وائے اہلِ فلسطین
  • یوکرینی سرحدوں کی جبری تبدیلی منظور نہیں‘یورپ کا ٹرمپ کو جواب
  • ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن
  • غزہ امن منصوبہ: کیا فلسطین کی آزاد ریاست وجود میں آ پائے گی؟
  • امریکی غلامی سے بہت نقصان اٹھایا، کشمیر و فلسطین ہماری ریڈ لائن: حافظ نعیم
  • فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • جی 20 سربراہ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ، فلسطین، سوڈان، یوکرین، کانگو تنازع کے منصفانہ حل کا مطالبہ
  • روس،یوکرین جنگ: یورپ کس حد تک جائے گا؟
  • یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے دفاعی اقدامات کو تیز کرنے کی ضرورت ہے،  یورپی یونین