Islam Times:
2025-10-09@16:26:02 GMT

غزہ فلسطین ہے اور فلسطین کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

غزہ فلسطین ہے اور فلسطین کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔

اسلام ٹائمز: یورپ کے انسانوں نے انسانی تاریخ کے بڑے اجتماعات کیے، اس موقع پر ان انسان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ ان دو سالوں میں یورپ کے 25 ممالک کے 793 شہروں میں فلسطین کی حمایت میں 45,000 سے زائد مظاہرے اور تقاریب منعقد ہوئیں۔ سب سے زیادہ مظاہرے اٹلی (7643)، جرمنی (6918)، اسپین (5886)، فرانس (5253) اور ہالینڈ (3301) میں ہوئے۔ دیگر ممالک میں سویڈن (3112)، ڈنمارک (3244)، بلجیم (2252)، سوئٹزرلینڈ (1561) اور آسٹریا (1745) شامل ہیں۔ مشرقی یورپی اور دیگر ممالک جیسے یونان، ناروے، پولینڈ، پرتگال، سربیا اور فن لینڈ میں بھی سینکڑوں مظاہرے ہوئے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ وقفہ ہے، جنگ اگلی جنگ تک رک گئی ہے۔ جب تک تمام فلسطینیوں کی گھر واپسی نہیں ہوتی، تب غزہ کی جنگ جاری ہے۔ دریا سے سمندر تک فلسطین ہوگا اور اس فلسطین میں تمام مذاہب کے فلسطینی مل جل کر رہیں گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ظلم، جبر، بربریت، نسل کشی، قحط، عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کا انہدام غرض اکیسویں صدی میں جو جو ظلم آپ سوچ سکتے ہیں، وہ سب اسرائیل نے کیے۔ اس تمام عرصے میں یورپ اور امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے بلکہ عملی طور پر ہر اس اقدام کے سامنے آئے، جو اسرائیل کو اس کی حد میں رکھنے اور علاقائی استحکام برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آپریشن وعد الصادق کے نام سے اس ظلم و بربریت کے خلاف دو بار کارروائی کی۔آپ اس کی مکمل تفاصیل دیکھ لیں۔ یورپ، امریکہ اور اس کی مقامی کٹھ پتلیوں نے  مل کر پوری طاقت اسرائیل کی حفاظت کے لیے  استعمال کی۔ یہ اسلامی جمہوری کی میزائل ٹیکنالوجی کی طاقت تھی کہ جس نے حیفہ اور تل ابیت میں اتنی گرمی پیدا کر دی کہ اس کی تپش واشنگٹن تک محسوس کی جانے لگی۔ امریکہ اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں آیا اور قطر میں اپنے بیسز پر حملہ کروا بیٹھا۔

صدر ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز آیا ہوا ہے اور بڑا زور کا آیا ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر صورت میں اس سال نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرے۔ اس نے تو باقاعدہ دھمکی آمیز زبان کا استعمال بھی کیا ہے کہ اسی کو ہی نوبل پرائز ملنا چاہیئے۔ یہ نوبل پرائز کمیٹی کے اخلاقی معیار پر بھی سوال ہوگا کہ وہ ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز دے۔ وہ شخص جو غزہ کی نسل کشی میں براہ راست شریک ہے، اسے کسی صورت میں یہ اہم انعام نہیں دیا جانا چاہیئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اسے کہا گیا ہوگا کہ جب تک غزہ جنگ جاری ہے، تب تک تمہیں یہ انعام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے اس نے مکمل اہتمام کیا اور ہر جگہ یہ ڈیڈ لائن دی کہ ہر صورت میں جمعہ تک غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات مکمل کیے جائیں، تاکہ جب جمعہ کو نوبل پرائز کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے تو اس وقت یہ خوش کن مناظر ٹی وی دکھائے جا رہے ہوں کہ غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔

میڈیا بتا رہا ہے کہ ٹرمپ خود شرم الشیخ میں حتمی ڈیل کے لیے پہنچ رہا ہے۔ ویسے یہ شرم الشیخ ہمیشہ سے فلسطینی جدو جہد کی خرید و فروخت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے فلسطینیوں کو جھوٹے وعدوں اور جبری بے دخلیوں کے سوا کبھی کچھ نہیں ملا۔ دوستو، ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ امن طاقت کا نتیجہ ہے، کمزور کو صرف غلامی کرنا ہوتی ہے۔ آج غزہ کے ہزاروں مجاہدوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ غزہ اور فلسطینی ریاست کی بات ہو رہی ہے۔ ابراہیم اکارڈ کے نام پر پورے غزہ اور فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہڑپ کرنے کا پروگرام تھا۔ مجاہدین کی قربانیوں نے استعماری منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ غزہ کی عظیم قربانیاں ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ پورا امریکہ، یورپ اور اس کے مقامی پٹھو بھی آپ کے خلاف ہوں اور آپ مکمل اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تیاری کریں تو فتح و نصرت آپ کے قدموں میں ہوتی ہے۔

یاد رکھیں کہ مزاحمت کے لیے باقی رہنا ہی فتح ہوتی ہے۔ خود کو عقل ِکل سمجھنے والے قوموں کی تاریخ سے آشنا نہیں ہیں۔ آج نہیں تو کل حالات نے پلٹا کھانا ہے اور طاقت کے توازن بدلنے ہیں۔ یہ غیر فطری ریاست ہے، آج نہیں کل یہ ختم ہو جائے گی۔ مقامی مسلمان، یہودی اور مسیحی مل جل کر رہیں گے اور یہ سب فلسطین ہوگا۔ کل تک نیتن یاہو فرعونوں کے لہجے میں بول رہا تھا کہ حماس پر مکمل فتح حاصل کریں گے، غزہ کو کسی ملکیتی پلاٹ کی طرح ایک سیرگاہ بنائیں گے اور اس کے لیے سرمایہ کاروں تک کا انتظام  کر لیا گیا تھا۔ آپ کو ٹرمپ کی وہ ویڈیو ضرور یاد ہوگی، جس میں غزہ کو ایک ریزورٹ اور ٹرمپ و نتین یاہو کو یہاں انجوائے کرتے دکھایا گیا تھا۔ آج سب مذاکرات پر مجبور ہوئے، ایک بار نہیں بار بار مجبور ہوئے۔

دنیا کا اجتماعی ضمیر حکومتوں سے ہٹ کر ہوتا ہے اور اس کے اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وقت تک عوام کی اجتماعی دانش پر میڈیا اور پروپیگنڈا کا پردہ ڈالا جا سکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ تمام غزہ برباد کرنے اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے کسی قیدی کو چھڑا نہیں سکا۔ حماس جب چاہتی ہے، جیسے چاہتی ہے، کارروائیاں کرتی ہے اور  اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے۔ سات اکتوبر کو راکٹ برسا کر بتا دیا کہ ہم زمین پر موجود ہیں اور تمہارے تو بہت ہی قریب موجود ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق موجود معاہدے کے تحت تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں 20 قیدیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ تمام زندہ بچ جانے والے قیدیوں کو ایک ساتھ ممکنہ طور پر اتوار تک رہا کر دیا جائے گا جبکہ ہلاک ہونے والے 28 قیدیوں  کی باقیات مرحلہ وار واپس کی جائیں گی

معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی افواج غزہ کے کچھ علاقے سے انخلا کریں گی اور علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھائی جائے گی۔ مکمل جنگ بندی پر مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔ اسرائیل ناقابل اعتبار ریاست ہے، یہ اپنے معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ موجودہ معاہدہ کتنے دن چلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ امریکہ اور مغرب کی حکومتوں کی پالیسی واضح تھی کہ یہ اسرائیلی نسل کشی میں حصے دار ہیں، مگر یورپ کی عوام نے کمال کی مزاحمت کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس شعور کی ہمارے مسلمان معاشروں میں بڑی ضرورت ہے۔ لوگوں کو انسانی حقوق اور دیگر نعروں پر بہت حساس کیا گیا تھا، مگر یہ سب کچھ تو اس فرضیہ کی بنیاد پر تھا کہ انسان سے مراد صرف سفید فام ہیں۔

یورپ کے انسانوں نے انسانی تاریخ کے بڑے اجتماعات کیے، اس موقع پر ان انسان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ ان دو سالوں میں یورپ کے 25 ممالک کے 793 شہروں میں فلسطین کی حمایت میں 45,000 سے زائد مظاہرے اور تقاریب منعقد ہوئیں۔ سب سے زیادہ مظاہرے اٹلی (7643)، جرمنی (6918)، اسپین (5886)، فرانس (5253) اور ہالینڈ (3301) میں ہوئے۔ دیگر ممالک میں سویڈن (3112)، ڈنمارک (3244)، بلجیم (2252)، سوئٹزرلینڈ (1561) اور آسٹریا (1745) شامل ہیں۔ مشرقی یورپی اور دیگر ممالک جیسے یونان، ناروے، پولینڈ، پرتگال، سربیا اور فن لینڈ میں بھی سینکڑوں مظاہرے ہوئے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ وقفہ ہے، جنگ  اگلی جنگ تک رک گئی ہے۔ جب تک تمام فلسطینیوں کی گھر واپسی نہیں ہوتی، تب غزہ کی جنگ جاری ہے۔ دریا سے سمندر تک فلسطین ہوگا اور اس فلسطین میں تمام مذاہب کے فلسطینی مل جل کر رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دیگر ممالک گیا تھا یورپ کے میں یہ غزہ کی اور اس کے لیے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

فلسطینی عوام نے صبر، حوصلے اور قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی‘ جاوداں فہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251008-08-11
کراچی (اسٹاف رپورٹر)ناظمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کراچی جاوداں فہیم نے تحریکِ مزاحمتِ فلسطین کے دو سال مکمل ہونے پر اپنے بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام نے بے مثال صبر، حوصلے اور قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ دو سال سے جاری یہ مزاحمتی جدوجہد ظلم کے مقابلے میں ایمان، عزم اور استقلال کی روشن علامت بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کو نہیں مانتے۔حماس کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے شہداء، مجاہدین اور معصوم بچوں کی قربانیاں پوری امت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ فلسطین کے لیے عملی مدد، سیاسی و سفارتی حمایت اور انسانی ہمدردی کے تمام تقاضے پورے کرے۔جاوداں فہیم نے کہا کہ جماعت اسلامی خواتین پاکستان، فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کے عزم کو دہراتی ہے اور اس جدوجہد کو اپنی اخلاقی و فکری طاقت سے جاری رکھے گی۔ انہوں نے خواتین سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں، اداروں اور سماجی حلقوں میں فلسطین کے لیے آگاہی مہم کو مزید مضبوط بنائیں تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی صرف فلسطینیوں کا نہیں، پوری امت کا مشترکہ مشن ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • دو ریاستی فارمولہ تسلیم نہیں، انصاف کے لیے جدوجہد جاری رہے گی: مشتاق احمد
  • سیز فائر، ٹی ایل پی غزہ میں امن ہونے پر فساد کرنا چاہتی ہے، وزیرمملکت
  • سیز فائر، ٹی ایل پی غزہ میں امن ہونے پر فساد کرنا چاہتی ہے، طلال چوہدری
  • طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت
  • فلسطینی عوام نے صبر، حوصلے اور قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی‘ جاوداں فہیم
  • روسی ہتھیاروں میں یورپ کے پرزے استعمال ہورہے ہیں‘ یوکرین کا الزام
  •  ہم رہا ہو چکے ہیں لیکن فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی: مشتاق احمد خان
  • غزہ جنگ کے 2 سال مکمل، یورپ سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، مارچ، ریلیاں، مظاہرے
  • زنجیر غلامی نامنظور!