کابل پر پاکستانی حملوں سے افغان طالبان میں خوف، سرحد پار دہشت گردی میں قابل ذکر کمی
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
گزشتہ ماہ کالعدم ٹی ٹی پی کی سینئرکمانڈروں کو نشانہ بنانے کیلیے پاکستان کے جوابی کابل حملوں نے افغان طالبان قیادت میں دھاک پیدا کی جس کے نتیجہ میں سرحد پار دہشت گرد حملوں میں قابل ذکر کمی دیکھنے میں آئی۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کابل کے وسط میں سرحد پار آپریشن کا مقصد طالبان حکومت کو غیر واضح پیغام دینا تھا کہ پاکستان دہشت گروں کے خلاف کارروائیاں اپنی سرزمین تک محدود نہیں رکھے گا۔
ایک سینئر افسر نے کہاکہ کابل آپریشن کا افغان طالبان قیادت اور ان کی سیکیورٹی مشینری پر واضح نفسیاتی اثر ہوا، کابل حملوں نے طالبان قیادت میں خوف اور احتیاط کا واضح عنصر پیدا کیا ، وہ سمجھ گئے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کا پاکستان کابل سمیت ہر جگہ پیچھا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے حالیہ دہشت گرد حملے کے فوری بعد افغان طالبان کے ترجمانوں نے نجی طور پر پاکستانی حکام سے رابطہ کرکے کشیدگی میں کمی کی درخواستیں کیں اور کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پر خودکش حملے میں وہ ملوث نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر معمولی پیش رفت ہے، اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات پر پاکستانی خدشات مسترد یا الزام ٹی ٹی پی پر عائد کرتے تھے۔
اس مرتبہ انہوں نے پس پردہ استدعا اور زور دیاکہ اسلام آباد دہشت گردی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ افغان طالبان کا پاکستان سے انتقامی کارروائی کا خوف ہے ، وہ سمجھ گئے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کی رسائی اور صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل حملوں کے بعد پاکستان پر سرحد پاردہشت گردی کی تعداد میں کمی دیکھی گئی، تاہم خطرہ ختم نہیں ہوا، حملوں میں کمی دھاک کے نتیجے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے کہ افغانستان کے اندر ہائی ویلیو اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے پاکستان تیار ہے، طالبان قیادت کو دہشت گردی کی قیمت معلوم ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طالبان قیادت افغان طالبان انہوں نے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟
پاکستان کی جانب سے 11 اکتوبر 2025 کو افغان سرحد کی بندش کے بعد وہ تمام راستے بند کر دیے گئے جو منشیات، غیرقانونی اسلحے، اسمگلنگ اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
طورخم گیٹ کی بندش نے افغان معیشت پر نمایاں اثرات چھوڑے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک ماہ کے دوران افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ چند ہفتوں کے دوران دیگر سرحدی راستوں کی بندش کے باعث مجموعی نقصان 200 ملین ڈالر سے بڑھ گیا۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی سرحد بند ہونے کے بعد طالبان حکومت بھارتی دہلیز پر، وزیر تجارت نئی دہلی پہنچ گئے
میڈیا رپورٹس کے مطابق 5000 سے زائد ٹرک مختلف مقامات پر رک گئے اور پاکستان کی منڈیوں تک پہنچنے کی امید میں رکھے گئے پھل و سبزیاں یا تو خراب ہوگئیں یا انہیں نہایت کم قیمت پر اندرونِ افغانستان بیچنا پڑا۔
سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا کہ افغانستان کی مجموعی تجارت کا تقریباً 70 سے 80 فیصد انحصار پاکستانی راستوں اور بندرگاہوں پر ہے۔ کراچی سے سامان چند ہی دنوں میں افغانستان پہنچ جاتا ہے، جبکہ ایران کے راستے یہ سفر تقریباً دگنا وقت لے سکتا ہے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ممالک سے آنے والے تجارتی مال کو افغان تاجروں تک پہنچنے میں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
دوسری جانب رپورٹس کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی رہی جس سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 3 کھرب 42 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ افغان ٹرانزٹ کے تحت ملک میں داخل ہونے والا تقریباً ایک کھرب روپے کا سامان دوبارہ پاکستان کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا تھا جو اضافی مالی خسارے کی بڑی وجہ تھا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہونے کا عام پاکستانی کی روزمرہ زندگی پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑا اور پاکستان کا بنیادی مقصد غیرقانونی تجارت کے طویل سلسلے کو روک کر قومی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک افغان سرحد تجارت معیشت