جنگ بندی: نسل کشی یا جزوی آزادی؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دوبرس کی عظیم قربانیوں کے بعد اہل غزہ پر امن کی چمکیلی دھوپ اُتری ہے۔ غزہ میں امن سانسیں لے رہا ہے۔ 13 اکتوبر کو شرم الشیخ میں امن معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد کی جارہی ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہان سمیت بیس ممالک اس تقریب میں مدعو ہیں تاکہ بیس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو جشن کے طور پر منایا جاسکے، شیمپین کی بوتلیں کھولی جاسکیں، صدر ٹرمپ کی شان میں قصیدے پڑھے جاسکیں اور ان کی ثالثی کو ہر سائز کے خوشامد کے پنکچر لگائے جاسکیں۔
فریقین کے درمیان توازن رکھنے کو ثالثی کہا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ یہودی وجود کے حق میں ہر طرح کی نوسربازی، بے ایمانی، مالی، فوجی، سفارتی مدد، اقوام متحدہ میں اس کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کرنے اور حماس پر جہنم کے دروازے کھولنے کی دھمکیوں کے باوجود ثالثی کے قبرستان کے مجاور ہیں۔
اے شوق وہی مے پی، اے ہوش ذرا سوجا
مہمانِ نظر اس دم، اک برق تجلی ہے
غزہ اب ملبے اور کھنڈرات کے ساتھ ساتھ مغرب کے عالمی انسانی حقوق، آزادی، مساوات اجتماعی شعور کی بیداری اور روشن خیالی کی علامت اور نشانی ہے۔ یہ سب اصطلاحات مغرب کی صدیوں کی معرکہ آرائی کا وہ حاصل ہیں جنہیں مسلمانوں کے باب میں فراموش کردیا جاتا ہے۔ غزہ جل کر مکمل طور پر خاک ہوگیا ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور اور مضبوط قوم جس کا زمین وآسمان نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے جہاں داخل ہورہی ہے۔ جو اپنے واپسی کے حق سے کسی طور دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امن انہیں تحفے میں نہیں ملا بلکہ ان کی مستقل جدوجہد، مزاحمت اور افسانوی صبر نے ہر ظالم کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ شمالی غزہ سے اسرائیلی افواج پیچھے ہٹ رہی ہیں تاکہ امن معاہدے پر عمل درآمد کی کارروائی کے نتیجے میں پیر کو وہ ساعت نایاب آئے جب اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکے۔
یہ معاہدہ امریکا، اسرائیل اور مسلم اور عرب حکمرانوں کی طرف سے حماس پر مسلط کیا گیا ہے جسے اس نے اپنے شہریوں کی نسل کشی روکنے کے لیے قبول کیا ہے۔ حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس کی جلاوطنی کی صورت میں غزہ میں کس کی حکومت ہوگی؟ وہاں حکومت کون چلائے گا؟ معاہدے کی نگرانی کی تفصیلات کیا ہیں؟ یہ معاملات ابھی پردہ غیب میں ہیں یا شاید جان بوجھ کر مبہم رکھے گئے ہیں تاکہ انہیں امریکا اور اسرائیل کی من پسند تعبیر عطا کی جاسکے۔ فی الحال تو معاہدہ قیدیوں کی واپسی اور ایک حد تک اسرائیلی افواج کے پیچھے ہٹنے پر عمل درآمد تک محدود ہے۔ یاد رہے اسرائیلی فوج مکمل طور پر غزہ کو خالی نہیں کرے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف پہلے مرحلے پر عمل کا معاہدہ ہے۔
حماس کو غیر مسلح کرنے اور اسرائیل کی موجودگی اور اس کے کنٹرول کو برقرار رکھنے کا ٹرمپ کا معاہدہ جسے امن کا مندر باور کرایا جارہا ہے دراصل قاتلوں کو انعامات دینے کا سلسلہ ہے جس کا ظاہر خوش نما لیکن اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے جس کے اندر بے ایمانیاں، فریب اور ڈھونگ ہی ڈھونگ بھرے ہوئے ہیں۔ ایک طرف امن، امن اور امن کے نعرے ہیں دوسری طرف یہودی وجود کو بے حدوحساب اور بے پناہ اسلحے کی فراہمی جاری ہے۔ امریکا کی طرف سے یہودی وجود کو چار عرب ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ دینے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ اور جو مظلوم فریق ہے، جارحیت کا شکار ہے اسے غیر مسلح کرنے اور ہر طرف سے باندھنے جوڑنے اور پابند کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ مظلوم کے ساتھ کوئی نہیں کھڑا ہے۔ آٹھ مسلم ممالک اور عرب سربراہان جنہوں نے صدر ٹرمپ کے اس معاہدے کو قصر چاپلوسی کے ستونوں پر کھڑا کیا تھا انہوں نے حماس سے کوئی رائے لی تھی اور نہ اہل غزہ سے ہی ان کی مرضی دریافت کی تھی۔
یہ معاہدہ تب ممکن ہوا ہے جب امریکا اور اسرائیل دوبرس تک حماس کو تباہ کرنے میں ناکامی اور مایوسی کے بعد جنگ بندی کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ جغرافیائی سیاست، جغرافیائی عسکری نقطہ نظر اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اسرائیل کچھ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے حالانکہ وہ اس دوران ایک لاکھ ٹن سے لے کر سوا لاکھ ٹن گولہ بارود غزہ پر بمبار ی کرچکا ہے۔ جدید تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی ہے لیکن حماس پھر بھی نہ صرف سلامت ہے بلکہ امریکا اور اسرائیل کو اس سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اب امن معاہدے کے ذریعے حماس کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل کیا جائے گا۔
غیر جانبدار ادارے غزہ کے شہداء کی تعداد تین لاکھ کے قریب قرار دیتے ہیں جس کے باوجود یہودی وجود کچھ بھی حاصل نہیں کرسکا۔ اس ناکامی کے بعد اب امریکا امن معاہدے کی طشتری میں رکھ کر غزہ کو اسرائیل کو دینے کی ترکیب کررہا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’اسرائیلی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی، فوجی کارروائیاں وقتی طور پر کم ہوں گی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی فنڈ آئے گا‘‘۔ یہ سو فی صد جنگ بندی نہیں ہے عارضی طور پر تعطل ہے۔ جس دوران حماس اور فلسطینی مجاہدین کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جائے گی، قابض سیکورٹی نگرانی کے زیراہتمام غزہ کی تعمیر نو ہوگی۔ مستقل جنگ بندی کب ہوگی؟ اس کے بارے میں خاموشی ہے۔ وہ بنیادی مسئلہ جو گزشتہ آٹھ دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں جنگوں کی بنیاد اور سبب ہے یعنی فلسطین کی سرزمین پر یہودی وجود کا قبضہ اس کا مصنوعی اور فرضی طور پر بھی کہیں تذکرہ نہیں۔
یہ معاہدہ محض جنگ بندی کے لیے نہیں ہے اس جنگ بندی کے پیچھے بڑے تجارتی عزائم پوشیدہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اکثر سرمایہ دار دوست جو رئیل اسٹیٹ بزنس سے منسلک ہیں ان کے زیر اہتمام فلیٹوں، کیسینوز، ہوٹلز اور ساحلی ریویرا کی تعمیرات اور عرب سرمایہ داری کا ایک ملاپ سامنے لانے کا منصوبہ ہے۔ ٹونی بلیر کو لایا ہی اسی لیے گیا ہے کہ وہ غزہ کو ایک ماڈرن سٹی بناسکیں۔ غزہ کے شہریوں کے لیے نہیں، عالمی سرمایہ کاروں کے لیے۔ جنگ بندی ان سب عزائم کی تکمیل کے لیے ایک دھوکا ہے۔ جنگ بندی سیاسی فتح کے لبادے میں کاروبار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ غزہ جنگ بندی کا سیاسی فیصلہ نہیںکاروبار کرنے کے لیے موزوں ماحول کا حصول ہے۔
امن بندی معاہدے کے جشن میں یہودی وجود کے دوبرس تک کیے گئے مظالم کی کوئی تادیب، کوئی سزا، اس کا کہیں ذکر نہیں۔ یہودی وجود نے ظلم کیا! کوئی بات نہیں! آگے بڑھو۔ مظلوم پر ظلم کو، اس کے قتل عام کو، ایک معمول کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے جس کا کوئی مواخذہ نہیں۔ انصاف اور جواب دہی کے بغیر ایک تعطل کو اگر امن کا نام دیا جائے تو وہ امن نہیں بلکہ سنگین جرم اور بے ایمانی کا پردہ ہے۔ جنگی جرائم کا جواب مانگے بغیر اور نسل کشی کا حوالہ دیے بغیر امریکا امن کا جشن اس لیے منارہا ہے کیونکہ وہ ان جرائم میں نہ صرف خود شریک بلکہ شراکت دار ہے۔ امریکا ثالث نہیں ایک ایسا دخیل اور دلال ہے جو ایک طرف اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے، اہل غزہ کا قتل کرنے کی مسلسل آزادی دے رہا ہے اور دوسری طرف اس کے راستے کی واحد طاقت حماس کو امن منصوبے کے ذریعے غیر مسلح اور جلاوطن کرکے اپنے شہریوں کی قبر پر مٹی ڈالنے تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ حماس اور اہل غزہ کے پاس دو ہی آپشن ہیں نسل کشی یا جزوی آزادی!! لیکن کیا ایسا ہی ہے؟
تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل یہودی وجود امن معاہدے قیدیوں کی کرنے اور کرنے کی اہل غزہ حماس کو اور اس کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
وادی کشمیر میں جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس سے وابستہ افراد کے گھروں پر چھاپے
پولیس ترجمان نے کہا کہ کارروائیاں مکمل قانونی تقاضوں کے تحت انجام دی گئیں اور دوران تلاشی مختلف مواد، بشمول لٹریچر اور تصاویر، ضبط کی گئیں جو مبینہ طور پر کالعدم آزادی پسند تنظیموں سے متعلق ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی اور آزادی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس سے وابستہ چند افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ پولیس ترجمان کے مطابق یہ چھاپے سرینگر کے مختلف علاقوں میں ان افراد کے گھروں پر مارے گئے جن کا تعلق مبینہ طور پر ان کالعدم تنظیموں سے ہیں۔ چھاپے جن مقامات پر مارے گئے ان میں مشتاق احمد بٹ عرف گوگا صاحب عرف مشتاق الاسلام، مرحوم اشرف صحرائی، معراج الدین کلوال عرف راج کلوال (جو فی الحال این آئی اے کی حراست میں ہے) اور ضمیر احمد شیخ کے مکانات شامل ہیں۔ پولیس ترجمان نے مزید کہا کہ کارروائیاں مکمل قانونی تقاضوں کے تحت انجام دی گئیں اور دوران تلاشی مختلف مواد، بشمول لٹریچر اور تصاویر، ضبط کی گئیں جو مبینہ طور پر کالعدم آزادی پسند تنظیموں سے متعلق ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ کارروائیاں وادی کشمیر میں شدت پسندی اور آزادی پسندی کے ڈھانچے کو توڑنے کے لئے جاری ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان نیٹ ورکس کی جڑوں تک پہنچنا ہے جو ایسے عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ سرینگر پولیس امن و قانون کی بحالی کے لئے پُرعزم ہے اور ایسے تمام افراد یا گروپوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی جو غیر قانونی یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ اشرف صحرائی کا انتقال 5 مئی 2021ء کو جموں کے ایک اسپتال میں ہوا تھا جہاں وہ علالت کے باعث زیر علاج تھے، وہ 80 برس کے تھے۔