۔26 ویں ترمیم کیس:ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،سربراہ آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جسٹس امین الدین خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم سب اپنے حلف کے پابند ہیں اور ہم سب قوم کو جوابدہ ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ
ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ کیس کی گزشتہ سماعت پر 6 سابق صدور سپریم کورٹ بارز کے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔ درخواست گزار اکرم شیخ نے آج اپنے دلائل کا آغاز کردیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی طرف سے تو لطیف کھوسہ نے درخواست دائر کردی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں لطیف کھوسہ میرے وکیل نہیں ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے لطیف کھوسہ نے آپ کی اجازت کے بغیر درخواست دائر کردی؟ اکرم شیخ نے دلائل کے آغاز پر شعر پڑھ کر سنایا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، ہم سب قوم کو جواب دہ ہیں، ہم آئین کے ماتحت ہیں اور ان کی گائیڈنس چاہیے۔ اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے اور بعد والے تمام ججز کو فل کورٹ کا حصہ بنایا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز بیٹھ جائیں، مگر اسے آئینی بینچ نہ کہا جائے؟ جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کی رائے میں فل کورٹ کیا ہے؟ ایک نے کہا تمام ججز فل کورٹ ہیں اور ایک رکن نے کہا کہ 16 ججز فل کورٹ ہیں۔ وکیل اکرم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ آئینی بینچ اس کیس کو نہیں سن سکتا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال ہے کہ جو آئینی بینچ میں شامل نہیں ہے وہ کیسے بیٹھ سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ بے شک 24 ججز بیٹھیں مگر ان کو آئینی بینچ نہ کہا جائے ، عدالت عظمیٰ کہلائے؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے، کسی ڈکٹیٹر نے بھی آئین میں اتنا ڈینٹ نہیں ڈالا جتنا 26ویں ترمیم نے ڈالا ہے، وکیل نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کے لیے پہلے ہمیں بینچ کا فیصلہ تو کرنے دیں۔ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا ہے ، 8 ججز اس کیس کو نہیں سن سکتے، جسٹس امین نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے 15 منٹ سے آپ آئین پر بات نہیں کررہے تو وکیل نے جواب دیا کہ میں آئین ہی پر بات کررہا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ 8 رکنی بنچ مفادات کا ٹکراؤ کی وجہ کیس نہیں سن سکتا، ساتھ ہی آپ کہہ رہے کہ 24 کے 24 ججز بیٹھ کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سنیں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ پرنسپل ہے کہ ایک لارجر بینچ کا فیصلہ ایک چھوٹا بینچ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ نیا ہے، آئینی بنچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا، دوسری جانب آپ کہتے ہیں 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، کیا 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ تو طے ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا، وکیل نے کہا کہ سر آپ نے احسان کیا ایک سال بعد کیس سننے کا، آپ نے فرمایا تھا کہ سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ ہونا چاہئے، میں نے آپ کا ریفرنس خود پڑھا جس میں آپ نے سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ بننے کا کہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے حوالے سے ویسے بھی مشہور ہے کہ زیادہ سوالات کرتا ہوں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سر مجھے اللہ نے خوشامدی کی بیماری سے بچایا ہوا ہے، وکیل نے کہا کہ مجھے جسٹس امین الدین نے راستہ دکھانے کا کہاخ وکیل کتابیں پڑھتے ہیں ابھی تو میں نے کتابیں پڑھی ہی نہیں، اس موقع پر بنچ نے وکیل اکرم شیخ کو کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا، آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں، کیا ان کے پاس پاور ہوگی ؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا پھر اس فیصلے کو ماننا پڑے گا، آپ نے تمام ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کا کہا تھا۔ وکیل اکرم شیخ نے جسٹس محمد علی مظہر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ایک کمرشل کیس لگا، آپ نے دو سال بعد فیصلہ دیا مگر انگلینڈ سے ایک کتاب لایا آپ نے اس کا ریفرنس نہیں دیا کہ وہ کتاب میں لایا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بار آپ جو بھی ریفرنس دیں گے، ججمنٹ میں آپ کا نام لکھیں گے۔ وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ الیکشن کی سکروٹنی ہوجائے گی، پھر ایک کمیشن بن گیا، ا سکروٹنی اور احتساب کو روکنے کے لیے، اسی کے نتیجے میں یہ آئینی ترمیم آگئی، اتنی سی تو داستان ہے، پس منظر انتہائی اہم ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ دنیا جہان کی باتیں کیں، مگر آئینی بنچ پر بات نہیں کرنی، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آئینی بنچ کیس نہیں سن سکتا تو چیف جسٹس کے پاس جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے پاس دو رْول ہیں، آئینی بینچ اور سپریم کورٹ کے ممبر بھی، جب چیف جسٹس آرڈر کریں گے ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہن لیں گے۔ جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہہ دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے یہ 8 رکنی بنچ کیس نہیں سکتا، آپ کے خیال میں وہ کونسا بنچ ہونا چاہئے جو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کو سن سکتا ہے؟ جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سپریم کورٹ آف پاکستان سنے، کوئی آئینی بنچ نہیں۔ وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کے قابل عزت ججز ہیں، آئینی بنچ کے نہیں، میں نے کوئی پوزیشن لی نہیں کہ کون سے ججز بینچ میں بیٹھے اور کون نہیں، میں یہی کہہ رہا ہوں کہ سارے ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، اس موقع پر عدالت نے وکیل اکرم شیخ کو آرٹیکل 191 پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ دلائل بعد میں پیش کریں، پہلے تو ہم نے بینچ کا فیصلہ کرنا ہے۔ آپ کہتے ہیں یہ بینچ نہیں سن سکتا، چلیں فرض کریں ہم نے آپ کی بات مان لی، ہم یہاں سے اْٹھ جائیں گے، فل کورٹ میں جا کر بیٹھ جائیں گے، فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، یہ بتا دیں، فل کورٹ کون بنائے گا؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک آپ یہ ثابت نہیں کریں گے کہ یہ بنچ اس مقدمے کو سننے کا اہل نہیں تب تک ہم آپ کی درخواست نہیں مان سکتے۔ وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے۔ وہ سپریم کورٹ جو آرٹیکل 176 اور 191 اے کو ملا کر بنے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے دو متفرق درخواستیں فائل کی ہیں؟ ہمارے پاس آپ کی صرف ایک متفرق درخواست ہے، دلائل شروع کرنے سے پہلے بتا دیں یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کیسے پاس کرسکتا ہے؟ وکیل شبر رضا نے جواب دیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کے تحت بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی آپ سپریم کورٹ ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کی طرح یہ بینچ بھی معاملہ چیف جسٹس یا کمیٹی کو ریفر کرسکتا ہے، اس مقدمے کو فل کورٹ سنے، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ا ویں ا ئینی ترمیم کے خلاف ججز پر مشتمل فل کورٹ نے استفسار کیا کہ ا جسٹس امین الدین نے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نے اپنے دلائل نہیں سن سکتا کالعدم قرار ا پ کہتے ہیں سپریم کورٹ ا پ کہہ رہے فل کورٹ کا جس پر وکیل کہا کہ ا پ کو ا ئینی کا فیصلہ نے دلائل وکیل نے بینچ کا سکتا ہے ہیں کہ ججز کو
پڑھیں:
سپر ٹیکس؛ سپریم کورٹ میں ٹیکس پر سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بحث
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران کمپنیوں کے وکیل نے اپنے دلائل دیے جب کہ سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بحث بھی ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت کی، جس میں مختلف ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل عابد شعبان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
سماعت کے دوران وکیل عابد شعبان نے مؤقف اپنایا کہ سینیٹ ترمیم کے لیے تجاویز دیتا ہے، ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سینیٹ نے 4 فیصد ٹیکس کی تجویز دی تھی جب کہ قومی اسمبلی نے 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تجاویز شامل کرے یا نہ کرے۔
عابد شعبان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے موکل انٹرنیٹ سروس مہیا کرتے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ وہ دلائل دہرانے سے گریز کریں۔
نعمان حیدر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوجی فرٹیلائزر کیس میں کہا تھا کہ پاکستانی انڈسٹریز تباہ ہو رہی ہیں۔ وکیلوں کی فیس سے ایڈوانس ٹیکس کٹتا ہے اور پھر سپر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپر ٹیکس اپنی انکم سے دینا ہوتا ہے؟ جس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انکم ٹیکس سمیت تمام کٹوتیاں ہو چکی ہوتی ہیں، اس کے بعد سپر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس مظہر نے استفسار کیا کہ آیا ان کے موکل نے فیس پوری ادا کی ہے؟ اگر ٹیکس والے فیس میں سے ٹیکس مانگ رہے ہیں تو کیا وہ غلط کر رہے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں، ٹیکس والے غلط نہیں کر رہے۔
نعمان حیدر نے مزید دلائل میں بتایا کہ بھارت میں 1961 کا ٹیکس قانون اپنایا جا رہا تھا لیکن اب انہوں نے پاکستان کا موجودہ ماڈل اپنا لیا ہے۔ بھارت میں ٹیکس ایئر یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جس میں ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔