چھبیسویں آئینی ترمیم کیس، ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،جسٹس امین الدین خان
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
چھبیسویں آئینی ترمیم کیس، ہم سب حلف کے پابند اور قوم کو جواب دہ ہیں،جسٹس امین الدین خان WhatsAppFacebookTwitter 0 20 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )جسٹس امین الدین خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم سب اپنے حلف کے پابند ہیں اور ہم سب قوم کو جوابدہ ہیں۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
یاد رہے کہ کیس کی گزشتہ سماعت پر 6 سابق صدور سپریم کورٹ بارز کے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔درخواست گزار اکرم شیخ نے آج اپنے دلائل کا آغاز کردیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی طرف سے تو لطیف کھوسہ نے درخواست دائر کردی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں لطیف کھوسہ میرے وکیل نہیں ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے لطیف کھوسہ نے آپ کی اجازت کے بغیر درخواست دائر کردی؟ اکرم شیخ نے دلائل کے آغاز پر شعر پڑھ کر سنایا۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، ہم سب قوم کو جواب دہ ہیں، ہم آئین کے ماتحت ہیں اور ان کی گائیڈنس چاہئے، اس موقع پر اکرم شیخ نے عدالت میں دعا کرنے پر اصرار کیا اور اجازت ملنے پر علامہ اقبال کا شعر پڑھ کر سنایا۔وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ مجھے ایک ڈیڑھ گھنٹہ دے دیں، جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر پندرہ بیس منٹ میں آئینی بات کریں تو آسان ہو جائے گا، ایک صاحب نے تو یہاں کہا ہے کہ آئین کو ایک سائڈ پر رکھ دیں، یہاں پر دو معروضات پیش کردیے گئے ہیں، انہوں نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ 24 یا 16 کس پر متفق ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ 24 ججز کی حمایت کرتے ہیں۔اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے اور بعد والے تمام ججز کو فل کورٹ کا حصہ بنایا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز بیٹھ جائیں، مگر اسے آئینی بینچ نہ کہا جائے؟ جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کی رائے میں فل کورٹ کیا ہے؟ ایک نے کہا تمام ججز فل کورٹ ہیں اور ایک ممبر نے کہا کہ 16 ججز فل کورٹ ہیں۔وکیل اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا کہ یہ آئینی بنچ اس کیس کو نہیں سن سکتا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال ہے کہ جو آئینی بنچ میں شامل نہیں ہے وہ کیسے بیٹھ سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ بے شک 24 ججز بیٹھیں مگر ان کو آئینی بنچ نہ کہا جائے ، سپریم کورٹ کہلائے؟۔
وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے، کسی ڈکٹیٹر نے بھی آئین میں اتنا ڈینٹ نہیں ڈالا جتنا 26ویں ترمیم نے ڈالا ہے، وکیل نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کے لیے پہلے ہمیں بنچ کا فیصلہ تو کرنے دیں۔اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا ہے ، 8 ججز اس کیس کو نہیں سن سکتے، جسٹس امین نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے 15 منٹ سے آپ آئین پر بات نہیں کررہے تو وکیل نے جواب دیا کہ میں آئین ہی پر بات کررہا ہوں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ 8 رکنی بنچ مفادات کا ٹکرا کی وجہ کیس نہیں سن سکتا، ساتھ ہی آپ کہہ رہے کہ 24 کے 24 ججز بیٹھ کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سنیں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ پرنسپل ہے کہ ایک لارجر بینچ کا فیصلہ ایک چھوٹا بنچ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ نیا ہے، آئینی بنچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ مفادات کا ٹکرا ہوگا، دوسری جانب آپ کہتے ہیں 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، کیا 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ میں مفادات کا ٹکرا نہیں ہوگا؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ تو طے ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کا فیصلہ ختم نہیں کرسکتا، وکیل نے کہا کہ سر آپ نے احسان کیا ایک سال بعد کیس سننے کا، آپ نے فرمایا تھا کہ سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ ہونا چاہئے، میں نے آپ کا ریفرنس خود پڑھا جس میں آپ نے سارے ججز کو آئینی بنچ کا حصہ بننے کا کہا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے حوالے سے ویسے بھی مشہور ہے کہ زیادہ سوالات کرتا ہوں، جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سر مجھے اللہ نے خوشامدی کی بیماری سے بچایا ہوا ہے، وکیل نے کہا کہ مجھے جسٹس امین الدین نے راستہ دکھانے کا کہاخ وکیل کتابیں پڑھتے ہیں ابھی تو میں نے کتابیں پڑھی ہی نہیں
اس موقع پر بنچ نے وکیل اکرم شیخ کو کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ چھوٹا بنچ بڑے بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا، آپ کہہ رہے ہیں کہ 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں، کیا ان کے پاس پاور ہوگی ؟ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا پھر اس فیصلے کو ماننا پڑے گا، آپ نے تمام ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کا کہا تھا ۔وکیل اکرم شیخ نے جسٹس محمد علی مظہر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ایک کمرشل کیس لگا، آپ نے دو سال بعد فیصلہ دیا مگر انگلینڈ سے ایک کتاب لایا آپ نے اس کا ریفرنس نہیں دیا کہ وہ کتاب میں لایا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بار آپ جو بھی ریفرنس دیں گے، ججمنٹ میں آپ کا نام لکھیں گے۔وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ الیکشن کی سکروٹنی ہوجائے گی، پھر ایک کمیشن بن گیا، ا سکروٹنی اور احتساب کو روکنے کے لیے، اسی کے نتیجے میں یہ آئینی ترمیم آگئی، اتنی سی تو داستان ہے، پس منظر انتہائی اہم ہے۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ دنیا جہان کی باتیں کیں، مگر آئینی بنچ پر بات نہیں کرنی، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آئینی بنچ کیس نہیں سن سکتا تو چیف جسٹس کے پاس جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے پاس دو رول ہیں، آئینی بینچ اور سپریم کورٹ کے ممبر بھی، جب چیف جسٹس آرڈر کریں گے ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہن لیں گے۔
جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہہ دیا کہ مفادات کے ٹکرا کی وجہ سے یہ 8 رکنی بنچ کیس نہیں سکتا، آپ کے خیال میں وہ کونسا بنچ ہونا چاہئے جو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کو سن سکتا ہے؟ جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس سپریم کورٹ آف پاکستان سنے، کوئی آئینی بنچ نہیں۔وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کے قابل عزت ججز ہیں، آئینی بنچ کے نہیں، میں نے کوئی پوزیشن لی نہیں کہ کون سے ججز بینچ میں بیٹھے اور کون نہیں، میں یہی کہہ رہا ہوں کہ سارے ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، اس موقع پر عدالت نے وکیل اکرم شیخ کو آرٹیکل 191 پڑھنے کی ہدایت کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ دلائل بعد میں پیش کریں، پہلے تو ہم نے بینچ کا فیصلہ کرنا ہے ۔ آپ کہتے ہیں یہ بینچ نہیں سن سکتا، چلیں فرض کریں ہم نے آپ کی بات مان لی، ہم یہاں سے اٹھ جائیں گے، فل کورٹ میں جا کر بیٹھ جائیں گے، فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، یہ بتا دیں، فل کورٹ کون بنائے گا؟ ۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک آپ یہ ثابت نہیں کریں گے کہ یہ بنچ اس مقدمے کو سننے کا اہل نہیں تب تک ہم آپ کی درخواست نہیں مان سکتے۔وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے۔ وہ سپریم کورٹ جو آرٹیکل 176 اور 191 اے کو ملا کر بنے ۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے دو متفرق درخواستیں فائل کی ہیں؟ ہمارے پاس آپ کی صرف ایک متفرق درخواست ہے، دلائل شروع کرنے سے پہلے بتا دیں یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کیسے پاس کرسکتا ہے؟۔وکیل شبر رضا نے جواب دیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کے تحت بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی آپ سپریم کورٹ ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کی طرح یہ بینچ بھی معاملہ چیف جسٹس یا کمیٹی کو ریفر کرسکتا ہے، اس مقدمے کو فل کورٹ سنے، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربانی پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات کا دن، فہرست جیل حکام کو ارسال بانی پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات کا دن، فہرست جیل حکام کو ارسال گزشتہ دور میں ٹرمپ مودی کے قریب تھے اب عاصم منیر کے گرویدہ ہیں، سی این این فوسپا کا خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ، زچگی کی چھٹی کے دوران خاتون کو نوکری سے نکالنا صنفی امتیاز قرار خیبرپختونخوا اسمبلی میں وزیراعلی سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات کی قرارداد منظور، اپوزیشن کی بھی حمایت پاک افغان طورخم گزرگاہ تجارت کے لیے کھولنے کی تیاریاں، عملہ طلب فیصل آباد اور ساہیوال کے 5حلقوں میں ضمنی انتخابات کیلئے نیا شیڈول جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ویں آئینی ترمیم کے خلاف ججز پر مشتمل فل کورٹ جسٹس امین الدین خان جسٹس امین الدین نے جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ نے ریمارکس دیے کہ استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ کے نے اپنے دلائل نہیں سن سکتا حلف کے پابند کالعدم قرار آپ کہتے ہیں قوم کو جواب آپ کہہ رہے فل کورٹ کا جس پر وکیل کہا کہ آپ کو آئینی کا فیصلہ نے دلائل سکتا ہے وکیل نے ہیں کہ بنچ کا کے لیے ججز کو
پڑھیں:
ججز پر میڈیا سے بات کرنے پر پابندی لگا دی گئی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم جوڈیشل کونسل نے ججزکوڈ آف کنڈکٹ میں اہم ترامیم کردی گئیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں اکثریت رائے سے ترامیم کی منظوری دے دی۔کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم سے ججز میڈیا پر بات نہیں کرسکیں گے۔ چیف جسٹس ریٹائرڈ قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ترمیم سےججز کو الزامات کا جواب دینے کی اجازت دی گئی تھی۔
رول نمبر 5 میں دوبارہ ترمیم سے ججز کو پابند کردیا گیا کہ ججز الزامات کا جواب تحریری طور پر ادارہ جاتی رد عمل کیلئے قائم کمیٹی کو بھیجیں گے۔ترمیم کے مطابق جج میڈیا پر ایسے کسی سوال کا جواب نہیں دے گا جس سے تنازع کھڑا ہو، سوال میں بے شک قانونی نکتہ شامل ہو، جج جواب نہیں دے گا۔کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا ہے کہ جج کو ہر معاملے میں مکمل غیر جانب داری اختیار کرنی چاہیے، جج کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہ کرے جس میں ذاتی مفاد یا تعلق ہو، جج کسی قسم کے کاروباری یا مالی تعلقات سے اجتناب کرے، جج کو اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیاں، 34 خوارج ہلاک، آئی ایس پی آر
کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق سیاسی یا عوامی تنازع میں شامل ہونا جج کے لیے منع ہے، جج کسی بھی مالی فائدے یا تحفے کو قبول نہیں کرے گا، جج کو عدالتی کام میں تیزی اور فیصلوں میں تاخیر سے گریز کا پابند بنایا گیا، جج آئینی حلف کی خلاف ورزی کرنے والے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا، جج غیر ضروری سماجی، ثقافتی یا سیاسی تقریبات میں شرکت نہیں کرے گا۔کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا کہ جج غیر ملکی اداروں سے ذاتی دعوت قبول نہیں کرے گا، جج کسی وکیل یا فرد کی طرف سے ذاتی عشائیہ یا تقریب میں شرکت نہیں کرے گا،۔کوڈ آف کنڈکٹ میں جج کو صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور جج پر ہر قسم کے اندرونی یا بیرونی دباؤ سے آزاد رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
افغانستان سمیت جو بھی حملہ کرے گا اس کو بھرپور جواب ملے گا، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی
مزید :