کوئٹہ:

بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پروقار اور باوقار تقریب کے دوران جسٹس محمد کامران خان ملاخیل نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

یہ تقریب 20 اکتوبر 2025 کو ہائی کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 میں منعقد ہوئی جہاں جسٹس اقبال احمد کاسی نے ان سے حلف لیا۔ تقریب میں ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان، رجسٹرار عبدالقیوم لہڑی، سینئر جوڈیشل افسران وکلاء برادری کے اراکین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

شرکاء نے نئے قائم مقام چیف جسٹس کو عہدہ سنبھالنے پر گرمجوشی سے مبارکباد پیش کی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ تقریب انتہائی سادگی، وقار اور عدالتی روایات کے مطابق منعقد ہوئی جو عدلیہ کی شان و شوکت کی عکاسی کرتی تھی۔

جسٹس محمد کامران خان ملاخیل 19 جنوری 1968 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، وہ ملاخیل قبیلے کے ایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم فضل الرحمٰن خان ایک نامور سیاستدان پختون جرگہ کے مستقل رکن اور ایک کاروباری شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی پرورش اسلامی تعلیمات، وطن پرستی اور دیکھ بھال کے ماحول میں کی۔

جسٹس ملاخیل نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے معروف تمیر نو اسکولنگ سسٹم سے حاصل کی۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے کامرس میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن مکمل کی، ساتھ ہی کمپیوٹر سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا۔

سن 1994 میں انہوں نے یونیورسٹی لاء کالج کوئٹہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی قانونی کیریئر کی شروعات 1995 میں ہوئی جب وہ ایڈووکیٹ کے طور پر انرول ہوئے، 1997 میں ہائی کورٹ اور 2010 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ بنے۔

انہوں نے 18 سال سے زائد عرصے تک ڈسٹرکٹ کورٹس بلوچستان ہائی کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ میں پریکٹس کی۔ انہوں نے متعدد فوجداری، سول اور آئینی مقدمات لڑے، جن میں سے کئی لا جرنلز میں شائع ہوئے۔ ایک اہم کیس کامران خان ملاخیل بمقابلہ حکومت بلوچستان (PLD 2012 بلوچستان 57) تھا، جس میں انہوں نے صوبے میں ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی جوڈیشل اختیارات کو کالعدم قرار دلایا۔

بار ایسوسی ایشنز میں ان کی خدمات بھی نمایاں رہی، وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری ایگزیکٹو کمیٹی ممبر اور وائس پریزیڈنٹ رہے۔ 2010-2015 تک بلوچستان بار کونسل کے ممبر اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ انہوں نے بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی میں وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر لیکچرز دیے اور وکلاء کی تربیت کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا۔

سال 2000 اور 2001 میں انہوں نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام قومی وکلاء کنونشن کا انعقاد کیا۔ 30 اگست 2013 کو انہیں بلوچستان ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا اور 2 ستمبر 2015 کو مستقل جج بنے۔ بطور جج، انہوں نے 4000 سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا، جن میں آئینی پٹیشنز، اپیلز اور دیگر شامل ہیں۔ وہ ہائی کورٹ کی مختلف کمیٹیوں کے چیئرمین اور ممبر رہے جیسے رولز کمیٹی، ریسرچ کمیٹی اور لیجسلیشن کمیٹی۔

انہوں نے بلوچستان ڈسٹرکٹ جوڈیشری ایکٹ 2021 اور دیگر قوانین کی تیاری کی نگرانی کی، 8 اگست 2016 کے خودکش حملے کے بعد انہوں نے شہداء کے خاندانوں کو معاوضہ اور زخمیوں کے علاج کے لیے کاوشیں کیں۔

انہوں نے وکلاء کے لیے اسکالرشپ پروگرام شروع کیا جس کے لیے حکومت بلوچستان سے 250 ملین روپے حاصل کیے، جو اب 500 ملین تک پہنچ چکے ہیں ۔اب تک 20 وکلاء کو یوکے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپس دی گئیں۔

دوسری جانب، بلوچستان ہائی کورٹ کے افسران اور وکلاء نے جسٹس محمد کامران خان ملاخیل کو ان کے نئے منصب پر خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کی قیادت میں عدالتی نظام مزید مضبوط اور شفاف ہوگا۔ یہ تقریب بلوچستان کی عدلیہ کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، جو صوبے میں انصاف کی فراہمی کو مزید بہتر بنانے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلوچستان ہائی کورٹ کامران خان ملاخیل انہوں نے کورٹ کے حاصل کی کے لیے

پڑھیں:

سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف دائر 70 شکایات مسترد کر دیں

ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے آج ہونے والے اجلاس میں 74 شکایات کا جائزہ لے کر 70 شکایات متفقہ طور پر مسترد کر دیں۔

سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس کی صدارت چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بطور چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کی، جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں منعقد ہوا۔

ویڈیو لنک اور ذاتی شرکت

اجلاس میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جبکہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر ذاتی طور پر شریک ہوئے۔

پہلے مرحلے میں 67 شکایات کا جائزہ، 65 مسترد

اجلاس کے پہلے مرحلے میں کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت 67 شکایات کا جائزہ لیا، جن میں سے 65 درخواستیں متفقہ طور پر مسترد کر دی گئیں۔ ایک شکایت پر کارروائی کو موخر جبکہ ایک پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی شمولیت

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی اجلاس میں شمولیت سے معذرت کے بعد ان کی جگہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو شامل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:کیا جسٹس طارق محمود جہانگیری سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے بچ پائیں گے؟

اس کے بعد سات (7) شکایات کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے پانچ (5) مسترد کر دی گئیں، جبکہ دو (2) پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترامیم کی منظوری

سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترامیم کی بھی منظوری دے دی۔ یہ ترامیم چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے تجویز کی گئی تھیں، جنہیں معمولی رد و بدل کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا۔ مزید ہدایت دی گئی کہ ترامیم سرکاری گزٹ میں شائع کی جائیں۔

اعلامیے کے مطابق، ترمیم شدہ ضابطہ اخلاق تمام اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ارسال کیا جائے گا اور اسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی جاری کیا جائے گا۔

زیرِ التوا شکایات کی تعداد 87 رہ گئی

اعلامیے کے مطابق، سپریم جوڈیشل کونسل میں اب اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف زیرِ التواء شکایات کی تعداد 87 رہ گئی ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2024 سے اب تک 155 شکایات نمٹائی جا چکی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چئف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ یحییٰ آفریدی

متعلقہ مضامین

  • جسٹس کامران خان ملاخیل نے بلوچستان ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی این سی سی آئی اے افسر کی بازیابی کیلیے پولیس کو 3 دن کی مہلت
  • عمران خان جیسی جیل سہولیات مہیا کرنے کی قیدی کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری
  • ججوں کے ضابطۂ اخلاق میں ترامیم کی منظوری دے دی گئی
  • سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف 70 شکایات مسترد، 3 پر مزید کارروائی کی منظوری
  • سپریم جوڈیشل کونسل کی اکثریت کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کیخلاف شکایت پر کارروائی کا فیصلہ
  • سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف دائر 70 شکایات مسترد کر دیں
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا آئندہ ہفتے کا روسٹر جاری؛ چیف جسٹس سمیت 9 ججز سماعت کریں گے
  • کیا جسٹس طارق محمود جہانگیری سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی سے بچ پائیں گے؟