Express News:
2025-12-04@22:51:54 GMT

قرضوں میں کمی اور معاشی استحکام

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

پاکستان میں کاروباری اعتماد میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، بزنس انڈیکس ویو 28 کے مطابق کاروباری اعتماد گیارہ فی صد اضافے کے ساتھ 22 فی صد مثبت ہوگیا ہے۔ دوسری جانب میڈیا سے گفتگو میں گورنر اسٹیٹ بینک نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بیرونی قرضوں میں کمی ہوئی ہے اور پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 2022کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 31 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد نیچے آ گیا ہے۔ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ جی ڈی پی کے 0 سے 1 فیصد کے درمیان خسارے میں رہے گا جب کہ درآمدات میں اضافے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ کنٹرول میں ہے۔ رواں سال ترسیلاتِ زر 40 ارب ڈالر کا ہندسہ عبورکرجائیں گی، جب کہ نمایندہ ایکسپریس کے مطابق سیاسی افق پر مختلف افواہوں کی گردش سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج کو بھی اتار چڑھاؤ کے بعد مندی برقرار رہی ہے، جس سے انڈیکس ایک لاکھ 67 ہزار پوائنٹس کی سطح بھی گر گئی۔

پاکستان کی اقتصادی اور معاشی صورتحال اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں امید کے نئے راستے بھی دکھائی دیتے ہیں اور چیلنجوں کا دباؤ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ملک نے گزشتہ چند برسوں میں سیاسی عدم استحکام، عالمی معاشی سست روی، موسمیاتی بحران، درآمداتی انحصار اور کرنٹ اکاؤنٹ کے دباؤ جیسے مسائل کا سامنا کیا، مگر حالیہ رپورٹس اور معاشی اشاریے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت نہ صرف بتدریج استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ معاشی رجحانات میں تبدیلی کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔

کاروباری اعتماد میں اضافہ، بیرونی قرضوں میں کمی، ٹیکنالوجی کے استعمال میں تیزی، کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں نظم و ضبط اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ایسے عوامل ہیں جو قومی معیشت کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہیں۔

 کاروباری اعتماد کسی بھی ملک کی معاشی صحت کا بنیادی پیمانہ ہوتا ہے۔ جب کاروباری برادری مستقبل کے بارے میں پرامید ہوتی ہے تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے، پیداواری سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں، نوکریوں کے مواقع بڑھتے ہیں اور معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تازہ بزنس انڈیکس ویو 28 کے مطابق پاکستان میں کاروباری اعتماد میں 11 فیصد کا قابلِ ذکر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ محض ایک عدد نہیں بلکہ ان پالیسی اقدامات اور معاشی نظم و ضبط کا نتیجہ ہے جو گزشتہ ایک سال سے برقرار رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر کا ٹیکنالوجی اور جدت کی جانب رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے کاروباری ادارے اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر نئی ٹیکنالوجیز، خودکار نظام اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے طریقوں کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے ملکی معیشت کے ڈھانچے میں تبدیلی آ رہی ہے۔

ملک کے بڑے شہروں میں کاروباری اعتماد 14 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ اضافہ صرف کاروباری ماحول کے بہتر ہونے کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ ملک کے اقتصادی مراکز کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور پشاور میں کاروباری سرگرمیاں دوبارہ وسعت اختیار کر رہی ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں سیاسی بے یقینی، کساد بازاری، روپے کی قدر میں شدید کمی اور مہنگائی نے کاروباری طبقے کو غیر یقینی کا شکار کردیا تھا، تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کاروباری حلقوں کو حکومتی پالیسیوں پر کچھ حد تک اعتماد واپس ملا ہے۔

دوسری جانب، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد کے حالیہ بیان نے معاشی امکانات کو مزید تقویت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 2022 کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مجموعی قرض کا حجم بڑھنے کے بجائے کم ہوا ہے۔ یہ پیش رفت اس لیے بھی اہم ہے کہ 2015 سے 2022 کے درمیان پاکستان کے بیرونی قرض میں سالانہ اوسطاً 6.

4 ارب ڈالر کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اس نہج پر پہنچ کر معیشت قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 31 فیصد تک جا پہنچا تھا۔

اگر واقعی تازہ ترین اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تناسب کم ہو کر 26 فیصد پر آ گیا ہے تو یہ ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف قرضے کم ہوئے بلکہ معیشت کی مجموعی پیداواری صلاحیت بھی بہتر ہوئی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے اپنے مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنایا ہے۔

ترسیلاتِ زر میں اضافہ بھی پاکستان کی معاشی بحالی کے حوالے سے ایک خوش آئند اشارہ ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال ترسیلاتِ زر 40 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی جب کہ گزشتہ برس 38 ارب ڈالر کے قریب ترسیلات موصول ہوئی تھیں۔ یہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن پر اعتماد رکھتے ہیں اور یہاں اپنی رقوم بھیجنے میں نہ صرف دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔

ترسیلاتِ زر پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہیں جن کی بدولت نہ صرف کرنٹ اکاؤنٹ کا بوجھ کم ہوتا ہے بلکہ گھریلو سطح پر لاکھوں خاندانوں کی مالیات بھی بہتر ہوتی ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد کے درمیان رہے گا۔ یہ ہدف واقعی قابلِ ستائش ہے، کیونکہ درآمدات میں اضافے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ کا کنٹرول میں رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ملکی برآمدات میں بہتری آئی ہے، ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا ہے، اور خدمات کے شعبے میں بھی کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ تمام مثبت معاشی اشاریے اپنی جگہ، لیکن اسٹاک مارکیٹ کا حالیہ اتار چڑھاؤ بھی معاشی منظرنامے کا حصہ ہے۔

کیلنڈر سال کے اختتام پر لسٹڈ کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کی ایڈجسٹمنٹس، منافع بیچنے کے رجحان اور سیاسی افواہوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں وقتی مندی پیدا کی ہے۔ تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی مجموعی کارکردگی اس سال اب تک شاندار رہی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے گزشتہ برس کے مقابلے میں ریکارڈ تیزی دکھائی، انڈیکس میں نمایاں اضافہ ہوا، سرمایہ کاری کا حجم بڑھا، بین الاقوامی اداروں نے بھی دلچسپی دکھائی اور مقامی سرمایہ کار بھی اعتماد کے ساتھ مارکیٹ میں فعال نظر آئے۔ موجودہ مندی وقتی ہے اور ماہرین کے مطابق جلد ہی مارکیٹ دوبارہ اوپر کی طرف جانا شروع کر دے گی۔

مارکیٹ کی یہ لچک اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا سرمایہ کاری ماحول اب پہلے سے زیادہ مستحکم اور توانا ہے۔تاہم مثبت معاشی سرگرمیوں کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ عام شہری کو ابھی اس معاشی بہتری کے اثرات پوری طرح محسوس نہیں ہو رہے۔ کاروباری اعتماد بڑھ رہا ہے، لیکن چھوٹے کاروبار ابھی بھی مالیاتی سختیوں، بھاری بجلی و گیس نرخوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر صنعتی پیداوار کا بوجھ زیادہ ہونے کے باوجود مقامی منڈیوں میں لاگت بڑھتی جا رہی ہے۔ مہنگائی میں کمی آئی ہے، مگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں اب بھی عوام کی قوتِ خرید سے اوپر ہیں۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے معاشی بحالی کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچ سکیں۔ اگر حکومت ٹیکسیشن، توانائی، زرعی اصلاحات، برآمدی پالیسی اور صنعتی پالیسیوں پر واضح اور طویل المدتی لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر عمل درآمد یقینی بنائے تو پاکستان کی معیشت مزید مضبوط ہو سکتی ہے۔اسی طرح ٹیکنالوجی اور جدت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کو سرکاری سطح پر بھی سرپرستی کی ضرورت ہے۔

ملک میں ٹیکنالوجی انکیوبیٹرز، ڈیجیٹل فنانسنگ پلیٹ فارمز، ای کامر س کے فروغ اور آئی ٹی برآمدات میں اضافہ نہایت ضروری ہے۔ پاکستان کا نوجوان طبقہ بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے، اگر اسے جدید مہارتیں سکھانے اور روزگار فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں تو پاکستان مستقبل قریب میں آئی ٹی برآمدات کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔ترسیلاتِ زر میں اضافہ بہت خوش آئند ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کو سہولیات دے، قانونی راستوں سے بھیجی جانے والی رقوم کو مزید آسان بنائے اور اوورسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے محفوظ مواقع فراہم کرے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس جیسے اقدامات نے اچھا آغاز کیا ہے مگر اس شعبے میں ابھی بہت سی گنجائش موجود ہے۔

یہ تمام عوامل مل کر امید کی ایک نئی کرن پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں درست سمت میں چل کر معاشی بحالی کو مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھے، کاروباری طبقے کو مزید مراعات دے، توانائی اور ٹیکس اصلاحات میں پیش رفت کرے، اور عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت خطے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشیات میں شمار ہو سکتی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کی معیشت کاروباری اعتماد میں کاروباری زر میں اضافہ سرمایہ کاری کرنٹ اکاؤنٹ پاکستان کے کہ پاکستان اسٹیٹ بینک کے بیرونی اور معاشی کے باوجود ارب ڈالر مدات میں برا مدات اضافہ ہو کے مطابق جی ڈی پی ہوتا ہے پیش رفت رہے ہیں گیا ہے اس بات رہی ہے

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، مولانا فضل الرحمان

جے یو آئی کے سربراہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سال 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے، مگر ان کی طرف سے مذاکرات کیے گئے۔ 9 ماہ کی محنت کے بعد 18ویں ترمیم تیار کی تو لگا ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، ایسی مراعات کسی کو دینا خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم کرنا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، ایسی مراعات کسی کو دینا خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم نے ان ترامیم کو قبول نہیں کیا گیا، کوشش کی جائے کہ آئین متنازع نہ ہو، یہ ترمیم اسی طرح متنازع ہوگی جیسے 18ویں ترمیم سے پہلے کی ترامیم۔ انہوں نے کہا کہ سال 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے، مگر ان کی طرف سے مذاکرات کیے گئے۔ 9 ماہ کی محنت کے بعد 18ویں ترمیم تیار کی تو لگا ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم آئی تو پی ٹی آئی اس میں شریک نہیں تھی، ہم 26ویں آئینی ترامیم کا پی ٹی آئی کو بتایا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے مشترکہ اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن قائم کرنے کا بل منظور کر لیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صدرمملکت سے کرغزستان کے ہم منصب کی ملاقات، تجارت و معاشی تعاون وسیع کرنے پر اتفاق
  • ملک کے بیرونی قرضوں میں کمی، 2022 سے کوئی اضافہ نہیں ہوا
  • ملکی بیرونی قرضوں میں اضافہ نہیں کمی واقع ہوئی ہے؛ گورنر اسٹیٹ بینک
  • پاکستان 2040 تک ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی راہ پر گامزن
  • مضبوط معیشت ہی سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا،وزیراعظم
  • برآمدات میں اضافے پر مبنی معاشی ترقی کیلیے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں‘ وزیراعظم
  • برآمدات میں اضافے پر مبنی معاشی ترقی کیلئے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں، وزیراعظم
  • 27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، مولانا فضل الرحمان
  • سوچ بدلنی ہوگی، حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں،و وفاقی  زیر خزانہ