انڈیا میں ایک آرٹ مووی بنی تھی ’’گمن‘‘ جس میں فاروق شیخ نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کا رول کیا تھا، ساتھ میں تھیں سمیتا پاٹل۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے شہرت یافتہ مظفر علی جنھوں نے امراؤ جان بھی بنائی تھی۔ ’’گمن‘‘ کے موسیقار تھے جے دیو۔ اس فلم میں مخدوم محی الدین کی ایک غزل شامل تھی، اسی کی طرف میرا اشارہ ہے۔ اس غزل کو گایا تھا چھایا گنگولی نے اور بہت ہی خوب گایا تھا۔ آپ بھی اگر اس غزل کو سنیں گے تو یہی رائے دیں گے۔
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھر تھراتی رہی رات بھر
اس غزل میں ستار کی آواز بہت دلکش معلوم ہوتی ہے۔ اسے راگ بھرویں میں باندھا گیا ہے جو ایک مقبول راگ ہے۔
1949 میں کمال امروہی نے فلم ’’محل‘‘ بنائی جس میں مدھو بالا کو پہلی بار ہیروئن لیا گیا، اور وہ اپنے بے پناہ حسن اور رعنائی کی بنا پر پہلی ہی فلم سے فلم بینوں کے دل میں گھر کرگئیں۔ اس فلم کی موسیقی دی تھی کھیم چند پرکاش نے۔ شاعر تھے نخشب۔ اس فلم کے یوں تو لتا کے گائے ہوئے سارے ہی گیت مقبول ہوئے لیکن دو گیت ایسے تھے جنھیں راج کماری نے گایا تھا۔ اس وقت انھی گیتوں کی طرف میرا اشارہ ہے۔ آپ سنیے اور محظوظ ہوئیے:
گھبرا کے جو ہم سر کو ٹکرائیں تو اچھا ہو
اس جینے میں سو دکھ ہیں مر جائیں تو اچھا
…٭…
میں وہ دلہن ہوں راس نہ آیا جسے سنگھار
ہوں وہ چمن کہ جس میں نہ آئی کبھی بہار
1963 میں ایک فلم بنی تھی ’’میری صورت تیری آنکھیں۔‘‘ یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی اور اداکار تھے اشوک کمار اور آشا پاریکھ۔ اور اس لازوال گیت کو گایا ہے محمد رفیع نے۔ اس میں آشا پاریکھ کا رقص دیکھنے کے قابل ہے:
ناچے من مورا مگن
بدرا گھر آئے رت ہے بھیگی بھیگی
یہ گیت سننے اور دیکھنے دونوں کا ہے۔ موسیقی کے شائقین کے لیے یہ انمول تحفہ ہے۔ اس گیت میں ستار اور طبلے کا سنگیت بہت خوب ہے۔
وقت کیسے بدلتا ہے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے، جب شعور بیدار ہوا۔ والد صاحب کے کمرے میں گراموفون رکھا ہوتا تھا جس پر ایک کالا ریکارڈ لگتا تھا جو سوئیوں سے چلتا تھا۔ اس ریکارڈ پر لکھا ہوتا تھا ’’ ہز ماسٹرز وائس‘‘ اور ایک کتا بیٹھا ہوتا تھا، پھر وقت بدلا اور ریکارڈ پلیئر آگیا جس میں ایک ہی ریکارڈ لگتا تھا، لیکن سوئی نہیں بدلی جاتی تھی۔ پھر Siemense کا ریکارڈ پلیئر بھائی نے بحرین سے بھیجا جس میں بیک وقت دس ریکارڈ لگا کرتے تھے جو خودبخود یکے بعد دیگرے گرتے رہتے تھے اور بجتے رہتے تھے۔
جب دس ریکارڈ بج جاتے تو انھیں الٹا کر لگا دیا جاتا، یہ ریکارڈ 78 RPM، 45 RPMکے ہوتے تھے۔ پھر بڑے ریکارڈ آگئے جس میں دونوں طرف پانچ پانچ گانے ہوتے تھے۔ پھر وقت بدلا اور کیسٹ آگئے جن میں دس سے پندرہ گانے بھروائے جاتے تھے۔ پھر CD اور DVD آگئیں اور اب USB۔ لیکن سب سے آسان یوٹیوب، کلک کیا اور مرضی کا گانا دیکھ بھی لیجیے اور سن بھی لیجیے۔ لیکن سچ پوچھیں تو مجھے جو مزہ ریڈیو گرام پر موسیقی سننے کا ملا وہ کسی اور پر نہیں ملا۔ ریڈیو گرام پر موسیقی کی دھمک بہت اچھی لگتی تھی۔
ستار کی آواز الگ سنائی دیتی تھی اور طبلے کی سنگت الگ۔ پیانو کی مدھر تان الگ متاثر کرتی تھی۔ہماری نسل کے لوگوں کو پرانے گانے ہی اچھے لگتے ہیں اور پرانے گانوں کا یہ اثر ہے کہ سارے ری مکس پرانے گانوں ہی کے بنتے ہیں، یہی ان کی سدا بہار مقبولیت کا راز ہے۔ ایک فلم بنی تھی 1950 میں ’’ سرگم‘‘ کے نام سے جس میں اداکارہ ریحانہ اور راج کپور نے کام کیا تھا۔ یہ میوزیکل پکچر تھی جس کا موضوع موسیقی تھی۔ یہ پانچ بہنوں کی کہانی تھی، ریحانہ بعد میں پاکستان آگئیں اور یہیں کی ہو رہیں۔ اس فلم کی موسیقی دی تھی سی رام چندر نے۔ گیت یہ ہے۔
جب دل کو ستائے غم تو چھڑ سکی سرگم
بڑا درد ہے سات سروں میں بہتے آنسو جاتے ہیں تھم
یہ فلم ہم نے کیسٹ پر دیکھی تھی جب گھر گھر VCR پر فلمیں دیکھی جاتی تھیں، تب ہم نے انڈیا کی ساری آرٹ موویز دیکھ ڈالیں۔ لیکن اب اکیلے رہ جانے کے بعد فلمیں دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، پہلے ہم دونوں کا ذوق ایک تھا، تب فلم دیکھنے، موسیقی سننے کا، ادب پڑھنے کا مزہ آتا تھا۔ اب تنہائی کی ساتھی صرف موسیقی رہ گئی ہے۔1972 میں کمال امروہوی نے فلم ’’ پاکیزہ‘‘ بنائی جس کی لازوال موسیقی دی، غلام محمد نے لیکن افسوس کہ وہ اپنی فلم ریلیز ہوتے نہ دیکھ سکے اور خود مینا کماری بھی اس فلم کی مقبولیت نہ دیکھ سکیں۔ اس کے گیت کیفی اعظمی نے لکھے، تمام گانے سپرہٹ ہوئے لیکن بطور خاص مجھے یہ گیت بہت پسند ہے۔
یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
یوں ہی تھم کے رہ گئی ہے میری رات ڈھلتے ڈھلتے
مظفر علی نے فلم ’’امراؤ جان‘‘ بنائی تو واقعی مرزا ہادی رسوا کی امراؤ جان کو زندہ کر دیا۔ اس فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔ اس کے سارے ہی گانے ہٹ ہوئے لیکن مجھے ایک گانا بہت پسند ہے، جسے شہریار نے لکھا اور آشا نے گایا ہے، موسیقی خیام کی ہے، ستار کیا خوب بجایا گیا ہے اس میں:
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
کب ملی تھی کہاں بچھڑی تھی ہمیں یاد نہیں
زندگی تجھ کو تو ہر رنگ میں دیکھا ہم نے
فلم امراؤ جان میں کام کرنے پر ریکھا کو نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا تھا، فلم کو فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ریکھا کا کام قابل تعریف ہے۔
اور اب بات ہو جائے پاکستانی امراؤ جان ادا کی جسے حسن طارق نے بنایا تھا اور رانی نے اس میں لیڈنگ رول ادا کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے دو سیمی کلاسیکل گیت مجھے بہت پسند ہیں۔ واقعی رونا لیلیٰ ایک منفرد گلوکارہ تھیں:
دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں
کہتی ہے میری نظر شکریہ
…٭…
کاٹے نہ کٹے ناں رتیاں سیاں انتظار میں
میں تو مر گئی بے دردی تیرے پیار میں
اس قدر خوبصورت بندش میں یہ گیت ہے کہ بار بار سننے کو جی چاہتا ہے۔ طبلے اور ستار کی سنگت لاجواب ہے۔ رونا لیلیٰ کو پاکستان میں ایک خاتون گلوکارہ کی مخالفت کا سامنا تھا اور جب وہ انڈیا گئیں اور موسیقاروں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا تو لتا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ ان بڑی گائیکاؤں کو رونا لیلیٰ سے مسابقت نہیں رکھنی چاہیے تھی۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رونا لیلی اس فلم کی رات بھر ستار کی میں ایک نے فلم
پڑھیں:
میری بات پوری ہوئی، آج سہیل آفریدی کی ملاقات نہیں ہوئی: فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا—فائل فوٹوسینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ میں نے گزشتہ روز کہا تھا وزیرٍ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی آج بانیٔ پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہو گی۔
ایک بیان میں فیصل واوڈا نے کہا کہ میری بات پوری ہوئی اور آج وزیرِ اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی کی بانی سے ملاقات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا ہے کہ میں نے کہا تھا اگر وزیرِ اعلیٰ نے انچ برابر کوئی ہڑا ہُڑی کی تو بچی کچھی سیاست بھی گورنر راج سے ختم کر دی جائے گی۔
سینیٹر فیصل واؤڈا کا کہنا ہے کہ اگر مزید گند کرنا ہے تو خیبر پختون خوا میں گورنر راج کے لیے تیار ہو جائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز فیصل واوڈا نے ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ کل وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی بانیٔ پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہو گی۔
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اگر مزید گند کرنا ہے تو خیبر پختونخوا میں گورنر راج کےلیے تیار ہو جائیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 9 مئی کے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، کل سے اگلے ہفتے تک سب کو پتہ چل جائے گا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔