پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کیخلاف علی امین گنڈا پور کی درخواست خارج
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور:سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کو آزاد قرار دینے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پشاور ہائی کورٹ نے خارج کردی۔
جسٹس محمد نعیم انور اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔
علی امین گنڈا پور نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب اراکینِ اسمبلی کو آزاد قرار دینے کے اقدام کو چیلنج کیا تھا۔
گنڈا پور کی جانب سے الیکشن رولز 94 کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممبران کو آزاد قرار دیا ہے، لہٰذا یہ وضاحت کی جائے کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت موجود ہے یا نہیں۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر پہلے پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ اور بعدازاں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکے ہیں، لہٰذا اب یہ معاملہ طے ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل نے بھی کہا کہ نظرثانی درخواستوں پر آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد اس کیس کی مزید کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا جو اب جاری کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کی درخواست خارج کر دی گئی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈا پور گنڈا پور کی پی ٹی آئی
پڑھیں:
26 نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کی دائرہ اختیار کی درخواست خارج
فائل فوٹوانسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کی جانب سے دائر عدالتی دائرہ اختیار چیلنج کرنے کی درخواست خارج کردی۔
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی میں علیمہ خان سمیت 11 ملزمان کے خلاف 26 نومبر کے احتجاج پر تھانہ صادق آباد میں درج مقدمے کی سماعت ہوئی، علیمہ خان اپنے وکیل فیصل ملک کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئی۔
عدالت میں اسپیشل پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے علیمہ خان کی جانب سے دائرہ اختیار کے خلاف دائر درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکشن 23 کا اطلاق کسی بھی مقدمے کے آغاز میں کیا جاسکتا ہے۔
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ علیمہ خان آئندہ سماعت پر ٹرائل میں شریک نہ ہوئیں تو عدالت انسداد دہشتگردی ایکٹ کی شق 19 کے تحت سرکاری وکیل مقرر کرے گی۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ ملزمہ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے اب دائرہ اختیار چیلنج نہیں ہوسکتا، 12 ملزمان عدالت کے روبرو جرم کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالت شواہد کا جائزہ لے چکی ہے، سماعت قانونی طور پر درست ہے، ملزمہ پر شریک سازش اور معاونت کا الزام ہے وہ زیادہ سزا کی مستحق ہیں۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے دلائل کے دوران قائد اعظم کی 5 مارچ 1913 کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے کہا تھا جرائم اور انارکی سے اچھی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
عدالت میں علیمہ خان کے وکیل فیصل ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان پر الزام ہے کہ انہوں نے میڈیا پر بانی کا پیغام عوام تک پہنچایا، سیاسی جماعت کا کیس دہشت گردی کا کیس کیسے ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جمہوری جماعت ہے، اس کا احتجاج دہشت گردی کیسے ہوسکتا ہے، احتجاج کے دوران کسی پراپرٹی یا کسی کی جان کو نقصان نہیں پہنچا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ اگر میڈیا نے علیمہ خان کا بیان نشر کیا تو کوئی میڈیا پرسن مقدمے میں ملزم کیوں نہیں؟ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کا آپ کی عدالتی دائرہ اختیار کی درخواست سے کوئی تعلق نہیں۔
عدالت نے پراسیکیوشن اور وکلاء صفائی کے دلائل کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے عدالتی دائرہ اختیار چیلنج کرنے کی درخواست خارج کر دی۔