سپریم کورٹ: ‘ابھی تک آئین کے مطابق کسی وکیل نے دلائل نہیں دیے،’ 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم پر بحث، ججز کے سوالات نے سماعت کو نیا رخ دے دیا
سماعت کے آغاز پر وکیل اکرم شیخ روسٹرم پر آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کی طرف سے تو لطیف کھوسہ صاحب نے درخواست دائر کر رکھی ہے؟ اکرم شیخ نے جواب دیا کہ لطیف کھوسہ صاحب میرے وکیل نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے لطیف کھوسہ نے آپ کی اجازت کے بغیر درخواست دائر کردی؟ اکرم شیخ نے کہا کہ وہ بطور درخواست گزار خود پیش ہو رہے ہیں اور کسی دوسرے درخواست گزار کی نمائندگی نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال بعد اس کیس کی باری آئی ہے، مجھے ایک ڈیڑھ گھنٹہ دے دیں تاکہ اپنی معروضات پیش کرسکوں۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ فل بینچ کے لیے کوئی آئینی راستہ بتائیں، ہم اپنے حلف کے پابند ہیں۔ ابھی تک آئین کے مطابق کسی وکیل نے دلائل نہیں دیے۔ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ آئین کو سائیڈ پر رکھ دیں۔
یہبھی پڑھیے: آپ فُل کورٹ کی بات نہ کریں، سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
دلائل کے آغاز پر اکرم شیخ نے ایک شعر پڑھ کر سنایا، جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، ہم سب قوم کو جوابدہ ہیں اور ہم آئین کے ماتحت ہیں، ہمیں آئین کی رہنمائی چاہیے۔
اکرم شیخ نے عدالت میں دعا کرنے پر اصرار کیا، اجازت ملنے پر انہوں نے علامہ اقبال کا شعر پڑھ کر سنایا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ سماعت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 26ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ 26ویں آئینی ترمیم اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کہا کہ
پڑھیں:
جج میڈیا پر بات نہیں کر سکیں گے، سپریم جوڈیشل کونسل نے ترمیم شدہ ضابطہ اخلاق جاری کردیا
سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق میں اہم ترامیم کرتے ہوئے ججز کو پابند بنایا ہے کہ وہ اب میڈیا پر بات نہیں کر سکیں گے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی دور میں ترمیم سے ججز کو الزامات کا جواب دینے کی اجازت دی گئی تھی۔
رول نمبر 5 میں دوبارہ ترمیم سے ججز کو پابند کردیا گیا، اب ججز الزامات کا جواب تحریری طور پر ادارہ جاتی رد عمل کے لیے قائم کمیٹی کو بھیجیں گے اور میڈیا پرایسے سوال کا جواب نہیں دیں گے جس سے تنازع کھڑا ہو بے شک سوال میں کوئی قانونی نکتہ شامل ہو لیکن جج جواب نہیں دے گا۔ کوئی جج اپنے عدالتی اور انتظامی معاملات پر پبلک میں بات نہیں کرےگا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف دائر 70 شکایات مسترد کر دیں
’ججز ہم آہنگی پیدا کریں‘
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ ایک جج اپنے عدالتی کام اور دوسرے جج صاحبان کے ساتھ اپنے تعلق کے سلسلے میں نہ صرف اپنی عدالت بلکہ اپنے ساتھی ججز اور دوسری عدالتوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے گا۔ اپنے برابر یا اپنے سے جونیئر جج کے ساتھ بھی اختلاف رائے ضابطہ اخلاق کے دائرے اور تحمل کے ساتھ کیا جائےگا۔
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ جج کو ہر معاملے میں مکمل غیر جانبداری اختیار کرنی چاہیے، جج کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہ کرے جس میں ذاتی مفاد یا تعلق ہو اور جج کسی قسم کے کاروباری یا مالی تعلقات سے اجتناب کرے۔
اگر کسی جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے تو کیا کرے؟
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے اور اس کے پاس قانونی تدارک کا کوئی راستہ میّسر نہ ہو تو قانونی حدود میں رہتے ہوئے وہ فوری طور پر ادارہ جاتی ردعمل کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ترین جج صاحبان کو تحریری طور آگاہ کرے گا۔
تحریری درخواست موصول ہونے کے 2 دن کے اندر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس درخواست کو تین رکنی ججز کمیٹی کے سامنے رکھے گا جبکہ کمیٹی 15 دن میں درخواست کا فیصلہ کرےگی۔
اگر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اور 3 رُکنی ججز کمیٹی مقررہ وقت کے اندر فیصلہ نہ کر پائے تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 4 سینیئر جج صاحبان کے ساتھ درخواست کا فیصلہ کرے گا۔
اگر معاملہ کسی قانونی حل کا متقاضی ہو تو کم سے کم وقت میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک جج سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی اثر کے سامنے نہ صرف کھڑا ہو سکے بلکہ اپنے قانونی اختیارات سے کماحقہ آگاہ ہو۔
’کھانے کی دعوت قبول نہ کرے‘
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اعلی عدلیہ کا کوئی جج کسی بار ممبر کی جانب سے انفرادی حیثیت میں دی گئی کھانے کی دعوت قبول نہیں کرے گا۔
تحفہ سوائے رشتے داروں کے قبول نہ کرے
کوئی بھی جج سوائے رشتے داروں اور قریبی دوستوں کے کسی سے بھی تحفہ قبول نہیں کرےگا اور تحفہ بھی ایسا جو رسمی طور پر دیا جاتا ہے۔
’کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ چیف جسٹس کے ذریعے‘
ملکی اور بین الاقوامی کانفرسوں میں شرکت کے لیے دعوت ناموں کے لیے کی گئی خط و کتابت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی متصور ہو گی۔ کسی جج کو اگر ایسا کوئی دعوت نامہ انفرادی حیثیت میں موصول ہو تو وہ دعوت دینے والے کو آگاہ کرے گا کہ اسے یہ دعوت نامہ چیف جسٹس کے ذریعے سے بھیجا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا جسٹس طارق محمود جہانگیری سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے بچ پائیں گے؟
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کسی سماجی، ثقافتی، سیاسی یا سفارتی تقریب میں شرکت یا صدارت سے گریز کریں گے، عدالتی کام کے علاوہ جج کوئی اور مصروفیت جیسا کہ کسی تنظیم کے عہدیدار نہیں بن سکیں گے۔
ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی جج کم سے کم مقررہ وقت میں مقدمات کا فیصلہ نہیں کرتا تو وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ ادا نہیں کررہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews الزامات کا جواب تحفے تحائف ججز جسٹس فائز عیسیٰ ضابطہ اخلاق وی نیوز