فلم تشہیر کےلیے پانی والے بل بورڈ نے لوگوں کو حیران کردیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
ایک نئی تشہیری مہم نے ثابت کیا ہے کہ آج کے زمانے میں صرف جامد پوسٹرز اور سادہ بل بورڈز کافی نہیں رہے، ہالی ووڈ میں لگنے والے اس جدید بل بورڈ نے اشتہاری دنیا میں ایک نیا تجربہ پیش کیا ہے۔
مشہور ویب سیریز ڈزنی پلس کے تحت ریلیز ہونے والے ’Percy Jackson and the Olympians‘ کے دوسرے سیزن کی تشہیر کے لیے لاس اینجلس کے مشہور چوراہے ہالی ووڈ اور وائن پر ایک بل بورڈ نصب کیا گیا ہے، مگر یہ کوئی عام بل بورڈ نہیں بلکہ ایک مکمل ’واٹر انسٹالیشن‘ ہے.
یہ بل بورڈ ایک فنکشنل واٹر ٹینک کی مانند ڈیزائن کیا گیا ہے، جس میں مسلسل بہتے پانی کے ساتھ چھوٹے فوارے اور دھند کے اثرات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جب سیزن 2 کا ٹریلر چل رہا ہوتا ہے، تو پانی بہہ کر سڑک کی جانب نکلتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دریا کی ایک چھوٹی لہر واقعی وہاں موجود ہو۔ اس نئے تشہیری انداز نے بل بورڈ کو ایک جامد اشتہار سے ہٹ کر ایک جذباتی اور جاندار تجربہ بنا دیا ہے۔
A new ‘PERCY JACKSON’ billboard includes a physical waterfall effect pic.twitter.com/mqegfYJAS1
— DiscussingFilm (@DiscussingFilm) December 4, 2025یہ انوکھا اشتہاری تجربہ دیکھنے والوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ لوگ رک کر ویڈیوز بنا رہے ہیں، تصاویر لے رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اسے ’تخلیقی بل بورڈ‘، ’حقیقت اور فینٹسی کا ملاپ‘ اور ’سب سے پاگل اشتہار‘ کہتے ہوئے سراہ رہے ہیں۔ اس نے ثابت کیا کہ اشتہار صرف ایک تصویر نہیں، بلکہ جذبات اور احساسات کا امتزاج بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم، ہر شاندار خیال کو بلا تنقید قبول کرنا بھی درست نہیں۔ کچھ صارفین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر تشہیر اتنی متاثر کن اور مہنگی ہے، تو سیریز خود بھی اُس معیار کی ہونی چاہیے۔ اُن کے مطابق صرف ایک دیدہ زیب بل بورڈ کافی نہیں، کہانی، اداکاری، پروڈکشن ویلیو اور مواد کی گہرائی بھی ویسی ہونی چاہیے جیسی اس تشہیر نے توقع جگائی ہے۔
پرسی جیکسن اینڈ دی اولمپئن، سیزن 2، مصنف رِک ریوڈان کے ناول ’’دی سی آف مونسٹرز‘‘ پر مبنی ہے جو 10 دسمبر 2025 کو ڈزنی پلس پر ڈیبیو کرنے جارہا ہے۔ اس نئے سیزن کےلیے یہ بل بورڈ بالکل مناسب پیش لفظ ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اس کا ماحول، پانی کے فوارے، دھند کے اثرات اور روشنیاں، بالکل سیریز کی تھیم یعنی یونانی دیوتاؤں اور سمندر کی مہم کے ماحول سے میل کھاتا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بچے کا قتل اور زنجیر عدل کی بوسیدہ طوالت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کی لعنتی سڑکوں اور غلیظ گلیوں میں جہاں حکمرانوں کا کمینہ پن شہر کی فضا کو روتا بلکتا اور زہر آلود کرتا رہتا ہے وہاں نیپا چورنگی پر ایک تین سالہ بچہ ابراہیم مرگیا۔ طبعی موت نہیں کھلے مین ہول میں گرکر۔ ایک ایسے شہر میں جسے حرام خور اور کرپٹ بیوروکریسی نے کھلے زخم کی صورت دے دی ہے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس شہر ناپرساں میں زندہ لوگوں کی موجودگی کا ثبوت ان کی ایسی ہی اموات سے ملتا ہے جو سانحہ نہیں، حادثہ نہیں قتل کے، خون خاک نشیناں کے، زمرے میں آتی ہیں۔ مٹی تھی، سو مٹی میں جاملی لیکن اس ماں کا کیا کیجیے جس کا پورا جیون، سارے خواب چیخ بن گئے، اندھیری گپھائوں میں ڈوب گئے۔
وہ شہر جو احتجاج کرنا بھول چکا ہے نہ جانے کیوں اس واقعے سے مشتعل ہو گیا۔ خواب میں ہی سہی لوگ ان حرامزادوں کی تلاش میں جا نکلے جو اس ننھی جان کے قتل کے ذمے دار تھے۔ سب سے پہلے وہ نظام کے سب سے بڑے نمائندے ’’صدر‘‘ کے محل میں پہنچے جس کے نام پر اب کوئی ماں اپنے بچوں کا نام رکھنے پر تیار نہیں۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں سے مسکراتے ہوئے اس نے کہا ’’میں آپ کے غم پر بہت دکھی ہوں لیکن آپ کو علم نہیں میرا عہدہ تو آئینی ہے۔ میرا کام صرف پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں پر دستخط کرنا ہے، کھلے گٹر، بچوں کی لاشیں، شہر کی گندگی؟ یہ صدر کی ذمے داری نہیں ہے۔ یہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔ آپ ان کے پاس جائیں‘‘۔
صدر کے جواب پر ایک شخص نے آہستگی سے کہا ’’اس نظام میں ہمارا حال جانوروں سے مشابہ طے کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے پاس جانا بھی پاگل پن ہے لیکن چلو پھر بھی اس کے پاس چلتے ہیں‘‘۔ لوگ وزیراعظم کے محل میں پہنچے۔ انہیں کسی بھی چیز کو حتیٰ کہ درو دیوار کو بھی چھونے سے منع کیا گیا۔ سونے چاندی کی دیواریں غریبوں کے ہاتھ لگانے سے ناپاک ہوجاتی ہیں۔ سنجیدہ وزیراعظم نے بچے کے قتل کی واردات سنی تو ہاتھ نچاتے ہوئے بولا ’’دیکھیے میں بحرین کے دورے اور انگلینڈ کے آرام سے ابھی واپس آیا ہوں۔ یہاں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے نوٹی فیکشن کا چکر چل رہا ہوں۔ بچے کی موت پر مجھے بہت افسوس ہے مگر میں وفاقی سطح کے بڑے مسائل دیکھتا ہوں۔ معیشت، خارجہ پالیسی اور دہشت گردی وغیرہ۔ کراچی کے گٹر اور ان میں گرکر مرتے بچے صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ آپ گورنر اور وزیر اعلیٰ سے رابطہ کیجیے‘‘۔
لوگ گورنر کے پاس پہنچے وہ منہ پھاڑ کر بولا ’’میں صوبے میں وفاق کا نمائندہ اور شہر کی اقلیتی جماعت کی طرف سے ہوں۔ میرے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اس ملک کو اللہ، آرمی اور امریکا چلارہے ہیں۔ اصل میں تو آپ کو ان ہی سے رجوع کرنا چاہیے یا پھر صوبائی حکومت کے ان چوروں سے جو صوبے کو کھا رہے ہیں۔ گٹر اور بچوں کی لاشیں وزیراعلیٰ کی ذمے داری ہے۔ میرا مشورہ ہے آپ ان سے مل لیں‘‘۔
فضول اور بدقسمت لوگوں کا رُخ اب وزیراعلیٰ ہائوس کی طرف تھا۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو کراچی سے وصول کردہ ٹیکس سے سونے کی بڑی بڑی مچھلیاں بناکر وزیراعلیٰ ہائوس کے تالاب میں چھوڑی جارہی تھیں۔ صوبے کے پیٹ کی آگ ان ہی مچھلیوں سے پوری کی جاتی تھی۔ وزیراعلیٰ نے ہاتھ جوڑ کر لوگوں کو خوش آمدید کہا۔ اس کا لب ولہجہ ایسا تھا جیسے کوئی منافق جھوٹ بولنے کی کوشش کررہا ہو۔ ’’مجھے بچے کی موت پردکھ ہے۔ والدین سے میری طرف سے اظہار غم کردیجیے اور یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ افسردہ نہ ہوں۔ آپ میاں بیوی ابھی جوان ہیں اور بچے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں صوبے کے بڑے بڑے مسائل دیکھتا ہوں۔ شہر کے مسائل حل کرنا میئر کا کام ہے۔ اسکول جو بند پڑے ہیں، جہالت بیچ رہے ہیں، اسپتال جو موت کے قبرستان ہیں، گٹر اور مین ہول جو بچوں کو نگل رہے ہیں۔ یہ تو میئر کا کام ہے۔ ان سے جاکر مل لیں۔ وہ ہماری پارٹی کے میئر ہیں۔ آپ کا مسئلہ حل کردیں گے‘‘۔
دردر بھٹکنے کا عذاب اور سردردی بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی تھی۔ لوگوںکی سرگرم مزاجی کم ہوتی جارہی تھی۔ وہ تھک گئے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے دیمک اور بچھوئوں کے لشکر انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا چیئرمین بھی تھا۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ اب متعلقہ فرد سے ان کا رابطہ ہو چکا ہے۔ میئر نے دلال جیسی مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا اور کہا ’’میں آپ کا منتخب میئر ہوں‘‘ میئر نے دوران گفتگو بار بار اس جملے کی تکرار اس طرح کی جیسے کوئی اپنے آپ کو یقین دلارہا ہو۔ ’’میں شہر کا مالک ہوں مگر یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے گٹروں کی دیکھ بھال، ان کے ڈھکنوں کی چوری روکنا میرا کام نہیں ہے۔ یہ KWSB کے ایم ڈی کا کام ہے۔ وہ انجینئرز کے ساتھ مل کر پیسہ کھارہا ہے۔ یہ محکمے طویل عرصے سے جماعت اسلامی کے پاس ہیں۔ جماعت اسلامی کی پیدا کردہ سازشوں سے ہماری جان چھٹے تو ہم کچھ کام کریں۔ جماعت اسلامی نے شہر کے تمام ہیرونچیوں کو گٹر وںکے ڈھکن چوری کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ ہم ہر گٹر کے اوپر ایک پولیس والا تو کھڑا نہیں کرسکتے۔ بہرحال پھر بھی آپ KWSB کے چیئرمین سے مل لیں۔ میں اس سے فون پربات کرلوں گا‘‘۔
اب لوگ KWSB کے ایم ڈی سے ملے۔ وہ بولا ’’بے شک یہ بورڈ کا کام ہے مگر اصل کام تو چیف انجینئر کا ہے وہی فیلڈ میں جاتا ہے۔ گٹروں پر ڈھکن لگواتا ہے۔ اس سے ملنے کی کوشش کریں۔ اگر اسے مال بنانے سے فرصت مل گئی ہوگی تو آپ سے ملاقات کا وقت دے دے گا باقی آپ کا نصیب ہے۔ میں اتنا کرسکتا ہوں کہ اس جانب اس کی توجہ دلادوں لیکن میں اسے کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ بہت اوپر تک اس کی پہنچ ہے۔ آپ جائیں اور اس سے مل لیں اور پلیز آئندہ مجھے تنگ مت کیجیے گا‘‘۔
چیف انجینئر لوگوں سے ملنے پر تیار نہیں تھا۔ بصد مشکل ملا تو بولا ’’گٹروں کے ڈھکنوں کی چوری کی روک تھام کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو پلان بنانا ہے۔ دیکھ بھال کی ذمے داری یونین کونسلرز اور صفائی کرنے والوں کی ہے۔ وہ روزانہ دیکھتے ہیں۔ پھر چوری کیسے ہوجاتی ہے؟ جاکر یہ سوال ان سے کیجیے۔ یہ میرا کام نہیں ہے‘‘۔
لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ ایک پاگل نظام کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی ذمے دار نہیں ہے۔ سب ذمے داریوں کی لاش پر کھڑے ہیں۔ نیپا چورنگی پر قتل ہونے والے تین سالہ ابراہیم کی لاش اس نظام کی منافقت اور بوسیدگی پر ایک اور اضافہ ہے۔ جہاں شہر کھلے گٹر ہیں، حکمران پیسہ بنانے میں مصروف ہیں اور عوام کی زندگی مسلسل عذاب ہے۔ یہ نظام اب مسلسل اور مستقل بدعنوانی کے باعث اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ اب اپنے شہریوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے جان، مال اور بچوں کی خود حفاظت کریں۔ یہ نظام خلافت کی طرح خلیفہ کو اس بات کا ذمے دار نہیں بناتا کہ فرات کے کنارے کوئی گمشدہ بھیڑ بھی ضائع ہوکر مرجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے اس کے بارے میں پوچھے گا‘‘۔ اسلام میں اختیارات کا مرکز اعلیٰ خلیفہ ہے جو ریاستی ذمے داریوں کا آخری اور مرکزی جواب دہ ہے جب کہ جمہوریت اختیارات کی تقسیم کا نظام ہے ’’اختیارات تقسیم کردو تاکہ غلطی کا بوجھ بھی تقسیم ہو جائے‘‘ جب کہ اسلام کہتا ہے ’’اختیار تفویض کرو مگر ذمے داری اوپرقائم رہنے دو‘‘۔