data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر)متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ کراچی ماسٹر پلان نافذ ہو جاتا تو پیپلز پارٹی کے وزرا کنگلے ہو جاتے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دبائو پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے، کراچی ماسٹر پلان کی اتھارٹی لوکل گورنمنٹ سے چھین لی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کراچی کسی ایک ادارے کے کنٹرول میں نہیں ہے، تمام اداروں کو یکجا کرنے کے لیے کراچی ماسٹر پلان کا نفاذ ناگزیر ہے، یہ ماسٹر پلان کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا تھا۔خواجہ اظہار نے کہا کہ اگر کراچی ماسٹر پلان نافذ ہو جاتا تو پیپلز پارٹی کے وزرا کنگلے ہو جاتے، کیونکہ پھر کرپشن اور بے ضابطگیوں کے راستے بند ہو جاتے۔

اسٹاف رپورٹر گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کراچی ماسٹر پلان خواجہ اظہار ہو جاتے نے کہا

پڑھیں:

دریائے سواں،قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ

راولپنڈی کے تقریباً جنوب اور چکوال شہر سے کم و بیش چالیس کلومیٹر شمال مغرب میں اس علاقے کا واحد دریا،دریائے سواں بہتا ہے۔ یہ دریا مری کے قریب سے ہوتا ہوا ، ضلع راولپنڈی کو عبور کر کے ضلع چکوال میں بہتا ہوا ضلع تلہ گنگ میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر ضلع اٹک کے قصبے تراپ کے قریب سے ہوتا ہوا عظیم دریائے سندھ میں مدغم ہو کر اپنی ہستی مٹا دیتا ہے۔ دریائے سواں دراصل دریائے سندھ کے معاون دریاؤں میں سے ایک دریا ہے۔یہ دریا،دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان پھیلے وسیع و عریض علاقے کا واحد دریا ہے۔

اسی علاقے میں ٹیکسلا کی عظیم اور قدیم بستی ابھی تک آباد ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے کو مغلیہ عہد میں سندھ ساگر کا علاقہ کہا جاتا تھا۔دریائے سواں بارانی علاقوں یعنی راولپنڈی،اٹک اور چکوال کا اکیلا دریا ہے۔اس کا بہت تھوڑا سا حصہ ضلع میانوالی کے بالائی علاقوں سے بھی گزرتا ہے ۔میانوالی کے یہ علاقے بھی بارانی علاقے ہی شمار ہوتے ہیں جن کے بعد دریائے سندھ اور اس کے ارد گرد پھیلے علاقے جنوبی پنجاب سے لے کر بحیرہ ء عرب تک جاتے ہیں۔

دریائے سواں اپنا250کلومیٹر لمبا سفر ملکہء کوہسار مری کے قریب پتریاٹا کے مقام سے شروع کرتا ہے اور چھوٹا سا گاؤں بن وہ پہلا گاؤں ہے جو اس کے کنارے آباد ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے سملی ڈیم کو پانی فراہم کرنے کے بعد یہ اپنے بچے کھچے پانی کو لے کر قلعہ پھروالہ کے قریب اونچی پہاڑیوں کو بظاہر کاٹتا ہوا اپنا راستہ بناتا ہے۔اس مقام کو سواں کٹ کہتے ہیں۔ ماہرینِ ارضیات کی ایک رائے یہ ہے کہ کوئی بھی دریا یا ندی نالہ پہاڑیوں کو نہیں کاٹ سکتا،چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے سواں پہلے سے یہاں بہتا تھا جس کے بعد اس کی گزرگاہ کے ارد گرد زمین سے پہاڑیاں نمودار ہوئیں۔

اگر یہ بات مان لی جائے تو قرار پائے گا کہ دریائے سواں ارد گرد کی پہاڑیوں سے بھی قدیم ہے، گویا اس کو بہتے کئی ملین سال گزر چکے ہیں۔سہالہ کے قریب کاک پل تک پہنچتے پہنچتے دریائے سواں میں کئی چھوٹی بڑی ندیاں اور نالے آ کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

سہالہ انڈسٹریل اسٹیٹ صنعتی فضلہ اس میں ڈالتی ہے۔صنعتی فضلے کے علاوہ راولپنڈی شہر کا سیوریج کا پانی اور نالہ لئی میں بہتا اسلام آباد اور شمالی راولپنڈی کا سیوریج ملا گندا پانی بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ماضی میں ماہی گیر جال ڈال کر اس میں سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔چند دہائیاں پہلے تک اس کے کنارے چاندنی رات میں سفید ریت جگمگاتی عجب منظر پیش کرتی تھی۔اب اس قدیم تہذیب کے گہوارے کا پانی از حد آلودہ ہو چکا ہے۔اس دریا میںاب بھی خال خال چینی رہو،سانپ مچھلی، بام مچھلی، کیٹ فش اور مہاشیر موجود ہے۔اس کے ساتھ مختلف انواع کے کچھوے بھی ملتے ہیں مگر آلودہ پانی کی وجہ سے یہ سب معدومی کے شدید خطرے سے دوچار ہیں ۔کنگ فشر نامی پرندہ کبھی کبھی اس دریا میں شکار کرتا نظر آتا ہے۔

دریائے سواں کے ارد گرد تاحدِ نگاہ پھیلے ناہموار سطح مرتفعی علاقوں کی وجہ سے اس دریا کا پانی زرعی زمینوں کی سیرابی کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی نہر نکالی جا سکتی ہے تاہم زمینوں کی سیرابی کا یہ مقصد اسمال ڈیم بنا کر حاصل کیا جا سکتاہے اور کسی حد تک کیا بھی جا رہا ہے۔دریائے سواں کا 250کلومیٹر لمبا سفر کالا باغ ڈیم کے لیے مختص کیے گئے پیر پھلائی کے علاقے کے قریب ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں سے یہ دریا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔

دریائے سواں کا بہاؤ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس کا کیچ منٹ ایریا پھیلتی آبادیوں کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دریا نزع کے عالم میں ہے۔اس کے کناروں پرقبل از تاریخ کے شواہد ملتے ہیں یہ بلاشبہ ایک قدیم تہذیب اور کلچر کا مرکز رہا ہے مگر اب یہاں کچھ نہیں اور یہ صرف جدید تہذیب کا کچرا بہانے کے کام آتا ہے۔انسانی زندگی کے پاکستان میں قدیم ترین آثار دریائے سواںکے ارد گرد ملے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دریائے سواں کے آس پاس پتھر کے دور کے غالباً پانچ لاکھ سال پرانے انسانی فاسلز ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف خطۂ پوٹھوہار بلکہ قدیم ترین انسان بھی اسی علاقے میں رہ رہے تھے ۔اب تک پاکستان میں ملنے والے پتھر کے اوزار راولپنڈی میں مورگاہ کے قریب سے ملے ہیں۔تاریخ دانوں کا یہ ماننا ہے کہ دنیا کا قدیم ترین انسان جس نے مل جل کر رہنا شروع کیا وہ دریائے سواں کے کناروں پر بھی آباد رہا ہے اور انھی انسانوں نے وہ کلچر پروان چڑھایا جسے آج ہم وادیٗ سواں کی تہذیب و ثقافت کہتے ہیں۔سواں کے علاقوں سے عظیم الجثہ جانوروں کے فاسل بھی ملے ہیں۔

سواں، عظیم دریائے سندھ کا معاون دریا ہے۔ گاؤں اوڈھروال ایسا مقام ہے جہاں سے پانی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔یہاں سے ضلع کے مشرقی حصے کا پانی مختلف ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریائے جہلم میں جا گرتا ہے جب کہ مغربی حصوں کا پانی مختلف ندی نالوں میں بہتا دریائے سواںمیں شامل ہو جاتا ہے اور پھر یہ کالا باغ کے قریب دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔دریائے سواں کی ایک خصوصیت اس کا دھوکے باز ہونا ہے۔ ایک رات کو بالکل سوکھا ہوتا ہے جب کہ اگلی صبح کو اس میں اتنا زیادہ پانی ہوتا ہے کہ بغیر کسی سہارے اس کو پار کرنا مشکل ہوتا ہے۔نکہ کہوٹ ،تلہ گنگ کے پاس سے گزرنے والے بہت بڑے نالے گمبھیر کا پانی بھی اسی میں گرتا ہے۔چکوال میںدریائے سواں کا سب سے دلکش نظارہ قصبہ نیلہ کے بلند ترین حصے سے کیا جا سکتا ہے۔

اس ٹیلے پر پولیس ریسٹ ہاؤس اور پولیس اسٹیشن کی عمارت بھی ہے،جو 1892میں تعمیر کی گئی تھیں۔کچھ سال پہلے تک سواں کے پانیوں سے سونا بھی تلاش کیا جاتا تھا۔کبھی اس دریا کے ذریعے تجارت بھی ہوتی تھی۔اس دریا کے وجود کو اب بوجوہ خطرہ لاحق ہے۔یہ دریا سکڑتا جا رہا ہے۔قدیم ترین تہذیبوں کا یہ گہوارہ شاید جلد خشک ہو کر معدوم ہو جائے۔عوام اور مقتدر حلقوں سے درخواست ہے کہ اسے بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔

متعلقہ مضامین

  • دریائے سواں،قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • بلدیاتی نظام خودمختار بنائے بغیر مسائل کاحل ممکن نہیں‘ وزیربلدیات سندھ
  • چیئرمین آباد کا احتساب بیورو کی کارکردگی پر خراج تحسین
  • کراچی کے میئر نے کراچی موسمیاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سول سوسائٹی کی مضبوط شمولیت پر زور دیے رہے ہیں
  • ڈکی بھائی کی دوران حراست ویڈیو جاری، یوٹیوبر سے کس طرح کے سوال پوچھے جاتے رہے؟
  • پنجاب ڈیولپمنٹ پلان، صوبے کے 52 شہروں میں ترقی کا بڑا منصوبہ شروع
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • آسٹریلیامیں نیا قانون نافذ: 16سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد
  • سندھ کلچر ڈے