شرحِ سود کو ایک بار پھر برقرار رکھنے کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، عاطف اکرام شیخ
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
پاکستان میں شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے،صدر ایف پی سی سی آئی
شرح سود کو11فیصد پر برقرار رکھنے سے کاروباری ماحول شدید متاثر ہو گا، اسٹیٹ بینک فیصلے پر ردعمل
اسلام آباد (ممتاز نیوز)صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ شرح سود کو ایک بار پھر 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ، شرح سود کو برقرار رکھنے سے کاروباری ماحول شدید متاثر ہو گا۔ پیر کو اپنے ایک بیان میں شرح سود برقر ار رکھنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 11فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے ، مہنگائی کے تناسب سے شرح سود کو زیادہ سے زیادہ 6 سے 7 فیصد پر ہونا چاہیے، شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں میں 3500 ارب روپے کمی کا امکان تھا۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ پاکستان میں شرح سود خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے، کاروبار کی بہتری کیلئے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے، شرح سود اگر سنگل ڈیجٹ میں ہوتی تو پیداواری لاگت کم ہوتی، پیداواری لاگت میں کمی سے مہنگائی میں کمی آتی ہے ، شرح سود زیادہ رکھنا کرنسی سرکولیشن کو متاثر کرتا ہے، شرح سود کو برقرار رکھنے سے کاروباری ماحول شدید متاثر ہو گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی میں تاخیر سے مایوسی بڑھ رہی ہے، عمر عبداللہ
وزیراعلٰی نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک برس ہوا ہے اور وہ اب بھی پُرامید ہے کہ اگر ریاستی درجہ انکی حکومت کے دور میں بحال ہوا تو یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی میں مسلسل تاخیر سے لوگوں کی امیدیں مدھم پڑتی جا رہی ہیں اور اگر یہ عمل مزید موخر ہوا تو مایوسی مزید گہری ہوگی۔ اسمبلی کے احاطے میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاستی درجے کی بحالی کے بارے میں میری امید پہلے دن سے قائم تھی لیکن اب وہ کچھ کم ضرور ہوئی ہے، اگر یہ عمل مزید تاخیر کا شکار ہوا تو ہم میں ناامیدی بڑھ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک برس ہوا ہے اور وہ اب بھی پرامید ہے کہ اگر ریاستی درجہ ان کی حکومت کے دور میں بحال ہوا تو یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہوگی۔ تاہم عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ یونین ٹیریٹری کے تحت حکومت چلانا آسان نہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ریاست ہوتی تو ہم اپنی مرضی سے افسران تعینات کرتے اور کام تیزی سے ہوتا، لیکن یو ٹی میں وزرا اُن افسران کے فیصلوں کے ذمہ دار ہیں جو اُنہیں اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کر لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کی سابق ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے الگ الگ یونین ٹیریٹریز جموں و کشمیر اور لداخ میں منقسم کیا گیا تھا۔ عمر عبداللہ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ نیشنل کانفرنس کا بی جے پی سے کوئی خفیہ یا سیاسی سمجھوتہ نہیں۔ ان کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ ہم پس پردہ بی جے پی کے ساتھ ہیں، اگر ایسا ہوتا تو ہم نے راجیہ سبھا کی چوتھی نشست پر اپنا امیدوار کیوں اتارا ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس وہ واحد جماعت ہے جو بی جے پی کا براہِ راست مقابلہ کر رہی ہے، جب کہ دوسری جماعتیں کانگریس اور پی ڈی پی نے نگروٹہ کے ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران بعض اراکین کے بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دینے پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اپنا ایمان بیچ دیا۔ انہوں نے ایسے اراکین کے نام منظر عام پر لائے جانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق بی جے پی کے امیدوار ستیہ پال شرما کو 32 ووٹ ملے جب کہ ان کی پارٹی کے پاس صرف 28 اراکین اسمبلی تھے۔ یہ واضح ہے کہ کچھ اراکین کو راغب کرنے کی کوشش ہوئی، اب اس کا جواب بی جے پی کو دینا ہے۔
ہندوارہ کے رکنِ اسمبلی سجاد لون کی ووٹنگ سے غیر حاضری پر تنقید کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کا ووٹ نہ دینا بی جے پی کے حق میں گیا۔ انہون نے کہا کہ اگر وہ واقعی کسی فکسنگ کے خلاف تھے تو انہیں ووٹ ڈالنا چاہیئے تھا۔ اس دوران نیشنل کانفرنس کے ناراض ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی انتخابی مہم سے غیر حاضری پر بھی عمر عبداللہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "میں نے پارٹی میں کسی کو مہم کے لئے مجبور نہیں کیا، ہمارے پاس مہم چلانے کے لئے کافی رہنما ہیں"۔ انہوں نے آغا سید روح اللہ مہدی کے ذکر کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مقابلے میں میاں الطاف کا قد کہیں زیادہ ہے۔