data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نائن الیون واقعہ رونما ہونے اور پھر ایک فون کال پر نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر فرنٹ لائین کا کردار ادا کرنے کے بعد سے آج تک پاکستان آئی ایم ایف کی غلامی، قرضوں، دہشت گردی، معیشت کی تباہی کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ کے پی میں درجنوں آپریشن کے باوجود دہشت گردی کا جن بے قابو ہے، بلوچستان جل رہا ہے۔ پنجاب بھی لہو لہاں ہے۔ سندھ میں ڈاکو راج ہے۔ ملک بدترین سیاسی معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے، دہشت گردی ایک بار پھر پنجے گاڑ رہی ہے، دہشت گردی کے پے در پے ہونے والے لرزہ خیز واقعات نے قوم کو نہایت متفکر کر دیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس اس طرح کا جدید اسلحہ کہاں سے آیا جس کا مقابلہ سندھ پولیس بھی نہیں کر سکتی! ملک میں بدامنی اوردہشت گردی کا جن بے قابو ہوتا جارہا ہے۔ جس سے ہر محب وطن فرد فکر مند ہے۔ اسی تشویش کا اظہار وزیراعظم نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں بھی کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 2018ء میں دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا لیکن بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ اسلام آباد میں بلوچستان ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اللہ نے بلوچستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن افسوس کہ بلوچستان کی دولت اب بھی زمین کے اندر دفن ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں بلوچستان کو نظر انداز کرنا خود احتسابی کا لمحہ ہے‘ بلوچ عوام ہمیشہ کشادہ دل اور مہمان نواز رہے ہیں‘ بلوچستان میں مختلف برادریوں کے درمیان دیرپا ہم آہنگی قائم رہی‘ صوبے کی جغرافیائی ساخت ترقی کے سفر میں چیلنج بن گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دور دراز آبادیوں تک بجلی اور سڑکوں کی فراہمی بڑا مسئلہ ہے۔ (روزنامہ جسارت 26 اکتوبر 2025) دیکھا جائے تو یہ وزیراعظم کا
اعتراف شکست بھی ہے اور ناکام حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ بھی۔ بلوچستان اور کے پی کے میں درجنوں آپریشن کے باوجود وہاں کے عوام امن کو ترس رہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک سے کچے کے چند ڈاکو، مٹھی بھر شدت پسند یا بھارت نواز زیادہ طاقتور ہیں؟
خبریں ہیں کہ بلوچستان میں خضدار اور قلات سے مزید 12 محنت کشوں کے اغوا کے بعد تعداد 30 ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں سخت سیکورٹی کے باوجود مزدوروں کے اغوا ہونے والے واقعات میں مسلسل اضافہ تشویش ناک صورتحال ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 4 سال کے دوران ایک ہزار سے زائد لوگ اغوا ہوئے ہیں۔ جن میں اکثریت محنت کش طبقے کی ہے۔ صرف گزشتہ ہفتہ میں ضلع خضدار سے 18 مزدوروں کو اغوا کیا گیا۔ کچھ دن قبل مستونگ سے اغوا ہونے والے ڈی ایس پی کی لاش ملی ہے جن کو نوشکی سے اپنے گھر جاتے ہوئے سوراب سے اغوا کیا گیا تھا۔ محنت کشوں کے اغوا کا سبب بھتا خوری اور تعمیراتی کمپنیوں کا غیر مقامی لوگوں کو بھی لانا بتایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی ہمراہ افغانستان میں ہونے والے زلزلے میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر اظہارہمدردی اور تعزیت کرنے کراچی میں افغان قونصلیٹ میں جانے کا موقع ملا، قونصل جنرل صاحب کا بگرام ائربیس واپس کرنے کی امریکی صدر کی دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ واپس کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ شاید انہوں نے ائربیس میں جان بوجھ کر اس امید پر اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ چھوڑا اور تقسیم کیا ہوکہ اس کے نتیجے میں وہاں خانہ جنگی اور یہ لوگ آپس میں لڑیں گے مگر امیر المومنین نے جب عام معافی کا اعلان کیا تو سب لوگوں نے اسلحہ جمع کروادیا اور اس وقت افغانستان میں مثالی امن ہے۔ یہی چیز مخالفین کو پسند نہیں آئی کیوں کہ سب کا کاروبار بند ہوگیا۔ اب وہ ائربیس واپس لینا چاہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے شدت پسندوں اور سندھ کے ڈاکوئوں کے پاس بھی یہی خطرناک اسلحہ ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں بھی اسی اسلحہ کے استعمال ہونے کا بتایا جارہا ہے۔ کنٹینرز کے ذریعے کراچی سے بگرام ائربیس تک لے جانے والا اسلحہ اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ راستے میں حصے بخرے ہوجاتا تھا۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ یہاں پر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہورہا تھا اور عام آدمی اس سے باخبر ہے تو پھر ذمے دار ادارے کیا کر رہے تھے؟
دیکھا جائے تو ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، شدت پسندی، اور بدترین بدامنی کی صورتحال یا قیام امن ہو اس میں حکومتی پالیسیوں و اقدامات کا بڑا عمل دخل ہے۔ نائین الیون سے پہلے یہاں دہشت گردی یا خودکش حملوں کا کوئی تصور ہی نہیں تھا یہ سب کچھ غیروں کی جنگ میں فرنٹ لائن کردار ادا کرنے اور آمرانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جس کی وجہ سے انتقامی ذہن و محرومیاں بڑھتی ہیں۔ بلوچستان اگر گیس پیدا کرتا ہے اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے تو پہلا حق وہاں کے عوام کا ہونا چاہے، گوادر سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال سے سوال کرتے ہیں کہ گوادرکے نام پر سی پیک کا چرچہ ہے مگر بتایا جائے ملک میں کتنے اور بلوچستان میں کتنے کلومیٹر موٹروے بنایا گیا ہے؟ جواب کچھ نہیں ہے، مطلب بلوچستان میں ایک کلومیٹر موٹروے بھی نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک گوادر کے لوگ پینے کے پانی کے لیے بھی پریشان ہیں آخر کیوں؟۔ پاکستان ایک نظریاتی واسلامی ملک ہے جو مدینہ کی ریاست کے بعد دوسرا ملک ہے جوکہ کلمہ ٔ طیب کے نام سے معرض وجود میں آیا ہے۔ اگر ریاست کے قیام کے مقاصد کے مطابق عمل ہوتا تو وطن عزیز دہشت گردی سے لیکر مہنگائی چینی آٹا بحرانوں کی زد میں نہ ہوتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں مجموعی طور پر 34 اور صدر زرداری نے اسی مدت کے دوران 3 دورے کیے ہیں۔ جن میں سعودی عرب، چین، امریکا، مصر ودیگر شامل ہیں جبکہ ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد کہیں اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے بیرون ملک دورے ہوسکتے ہیں تو پھر اپنوں کو منانے اور مسائل کو سلجھانے و حل کرنے اور آپس میں مل بیٹھنے کے لیے بلوچستان فاٹا اور کے خیبر پختون خوا میں کیوں دورے نہیں کیے جاسکتے؟ آزاد کشمیر میں عوامی طاقت کے سامنے حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ سیاسی حکومت ہمیشہ مسائل کا حل سیاسی نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ فارم 47 کے ذریعے حکومت مسلط کرنے کا فارمولا بھی ناکام ہوگیا۔ سیاست کو بندگلی، معیشت کی بحالی اور ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نکالنے کے لیے پوری سیاسی قیادت کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا ذاتی علاقائی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفادات کے مطابق حکمت عملی بنانی ہوگی کیونکہ ملک ہیں تو ہم ہیں اور ملکوں سے ہی قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ اس لیے بیرونی جارحیت کا مقابلہ، فاٹا سے بلوچستان اور سیاسی انتشار سے معیشت کی بحالی تک مسائل کا واحد حل بات چیت، ناراض لوگوں کو منانا اور بڑے پن سے نکا لا جاسکتا ہے اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بلوچستان میں دہشت گردی کے ہونے والے
پڑھیں:
سڈنی حملہ دہشت گردی ہے جس میں صرف یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیراعظم
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں پر حملہ قرار دے دیا۔
آسٹریلوی وزیراعظم نے سڈنی کے ساحل پر اتوار کی شام ہونے والے مسلح افراد کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بونڈی میں یہودی کمیونٹی جمع ہوکر اپنا مذہبی تہوار حنوکا جوش و خروش سے منارہی تھی، دہشت گرد حملے میں صرف یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے۔
انتھونی البانیز نے یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ آئندہ تحفظ کیلیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہودی کمیونٹی سمیت آسٹریلیا کے تمام لوگوں کو قومی اتحاد کے ذریعے تحفظ فراہم کریں گے۔ البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا اور کہا کہ فوری ایکشن کی وجہ سے بہت ساری جانیں بچ گئیں۔
واضح رہے کہ دو مسلح افراد نے بونڈی ساحل کے قریب ایک اونچے مقام پر کھڑے ہوکر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک جبکہ 37 زخمی ہوئے جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔
ایک حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا جبکہ دوسرے کو 43 سالہ مسلم شہری احمد ال احمد نے دبوچ کر قابو کیا اور اس دوران وہ خود بھی دو گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں، جن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
شہری نے نہ صرف مسلح شخص کو دبوچا بلکہ اُس سے اسلحہ چھین کر گرفتاری کو یقینی بنایا۔ حراست میں لیے گئے دہشت گرد کی شناخت نوید اکرم جبکہ ہلاک حملہ آور کی شناخت مان ہارون مونس کے نام سے ہوئی ہے۔