آئی جی پنجاب کا سرگودھا کا دورہ; پولیس خدمت مرکز اور سیف سٹی پراجیکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
سٹی 42 : آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا سرگودھا کے دورے کے دوران پولیس خدمت مرکز اور سیف سٹی پراجیکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے سرگودھا کادورہ کیا۔ اس موقع پر آر پی او محمد شہزاد آصف خان، ڈی پی او صہیب اشرف، ڈسٹرکٹ ٹریفک آفیسر سمیت دیگر سینئر پولیس افسران موجود تھے۔آئی جی پنجاب نے اپنے دورے کے دوران سیف سٹی سرگودھا، آر پی او آفس، پولیس خدمت مرکز، زیر تعمیر ٹریفک اور ڈی پی او دفاتر کا معائنہ کیا اور جاری ترقیاتی و انتظامی امور کا جائزہ لیا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے وزیر داخلہ محسن نقوی کی ملاقات
آر پی او سرگودھا محمد شہزاد آصف خان نے آئی جی پنجاب کو سیف سٹی سرگودھا کی کارکردگی اور جرائم کی سرکوبی کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ آر پی او سرگودھا نے بتایا کہ سیف سٹی کیمروں کی مدد سے شہر میں جرائم کی شرح میں 21 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
آئی جی پنجاب نے سیف سٹی پراجیکٹ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ہدایت کی کہ مانیٹرنگ سسٹم کو مزید مؤثر بنایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کو سیف سٹی سرگودھا کے وزٹ کروائے جائیں تاکہ وہ سیف سٹی کی افادیت اور اہمیت سے آگاہ ہو سکیں۔
چارکروڑانسانوں کےکھانےکی امدادبند؛ سپرپاورکی گلیوں میں کہرام کا آغاز
علاوہ ازیں آئی جی پنجاب نے آر پی او آفس سرگودھا کے مختلف شعبہ جات کا بھی دورہ کیا، ریکارڈ کا جائزہ لیا اور عملے سے فراہم کردہ سہولیات کے بارے میں استفسار کیا۔ بعد ازاں انہوں نے پولیس خدمت مرکز سرگودھا میں شہریوں کو دی جانے والی سہولیات کا مشاہدہ کیا اور عوامی سہولت کے لیے مزید بہتری کی ہدایت جاری کی۔
دورے کے دوران آئی جی پنجاب نے زیر تعمیر ٹریفک دفاتر اور ڈی پی او آفس کے کام کی رفتار کا جائزہ لیتے ہوئے تعمیراتی عمل تیز کرنے کی ہدایت کی۔
میں نے پہلے ای چالان کی معافی کی ہدایت جاری کر دی ہے؛ مراد علی شاہ
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پولیس خدمت مرکز جائزہ لیا آر پی او سیف سٹی
پڑھیں:
پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی جدید سول سروس نظام درکار ہے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا سول سروس نظام درکار ہے جو جدید، شفاف، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ ان کے مطابق حکومت ایک جامع اصلاحاتی فریم ورک کے تحت بیوروکریسی کو نئی روح، مقصد اور توانائی کے ساتھ فعال بنا رہی ہے تاکہ یہ نظام عوامی توقعات کے مطابق کام کر سکے۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں “مقامی حقائق اور علاقائی مستقبل” کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کی۔ تقریب میں بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان چوہدری، ہائی کمشنر محمد اقبال کاشف راٹھور، اور دیگر ماہرینِ تعلیم، بیوروکریٹس اور طلبہ نے بھی شرکت کی۔
احسن اقبال نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی، موسمیاتی بحران، آبادی میں اضافہ اور جغرافیائی تبدیلیاں حکمرانی کے پرانے ماڈلز کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ایسے میں صرف وہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں جو اپنی سول سروس کو علم، شفافیت، مہارت اور خدمتِ عوام کے اصولوں پر استوار کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سول سروس ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے، جو نظم و ضبط اور ٹیکس وصولی کے لیے بنایا گیا تھا، ترقی کے لیے نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسا نظام تشکیل دیں جو استحکام کے بجائے جدت، مراتب کے بجائے اشتراک، اور طریقہ کار کے بجائے نتائج کو ترجیح دے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت نے سول سروس اصلاحات کے لیے ایک ’اسمارٹ فریم ورک‘ تیار کیا ہے، جس کے تحت سی ایس ایس امتحانات میں بھی بنیادی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ توجہ انگریزی زبان پر نہیں بلکہ تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور پالیسی فہم پر مرکوز ہو۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی کو ترقی نہیں بلکہ اشرافیہ کے تسلط کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے — اب وقت ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں۔ مزید کہا کہ خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ سول سروس واقعی عوام کی ترجمان بن سکے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے جامعات، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان شراکت کے لیے پبلک پالیسی لیبز کے قیام کی تجویز دی ہے، جو پالیسی سازی کو تحقیق، ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑیں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک سات نکاتی تعلیمی فریم ورک تشکیل دیا ہے جس میں علم پر مبنی پالیسی سازی، مشترکہ تحقیق، ڈیجیٹل گورننس، پالیسی فیلو شپ پروگرامز اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو مشترکہ چیلنجز — جیسے موسمیاتی تبدیلی، غربت اور پانی کی قلت — کے حل کے لیے ایک “ساوتھ ایشین گورننس فریم ورک” تشکیل دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں گورننس کا عمل پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے، کیونکہ اب عوام زیادہ تعلیم یافتہ، ڈیجیٹل طور پر منسلک اور باخبر ہیں۔ لوگ صرف ووٹ دے کر خاموش نہیں رہنا چاہتے بلکہ پالیسی سازی میں براہِ راست شرکت کے خواہاں ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اسلام نے انصاف، جواب دہی اور خدمتِ عوام پر مبنی نظامِ حکومت کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کا قول دہراتے ہوئے کہا: “اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر جواب دہ ہوگا” — یہی وہ اصول ہیں جو آج کے حکمرانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: “یاد رکھو، تم ریاست کے خادم ہو، حکمران نہیں” — یہی وژن موجودہ حکومت کی اصلاحات کا بنیادی فلسفہ ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت سول سروس کو ایک جدید، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت پر مرکوز ادارے میں بدلنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف حکومت کے زور پر نہیں آتی — بلکہ جب ریاست، نجی شعبہ، جامعات اور سول سوسائٹی ایک ٹیم بن کر کام کریں تو ملک ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
احسن اقبال نے کانفرنس میں جامعات کے لیے کارکردگی کے سات نکاتی فریم ورک کا اعلان بھی کیا، جس میں تعلیمی معیار، تحقیق و جدت، صنعت و اکیڈمیا تعلقات، سماجی خدمت، ٹیکنالوجی کا استعمال، کارپوریٹ گورننس اور گریجویٹس کے معیار جیسے عناصر شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے ملک کی اشرافیہ سے اپیل کی کہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا:غریب عوام آج بھی پاکستان کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں، اب وقت ہے کہ خوشحال طبقہ بھی ٹیم پاکستان کا حصہ بنے۔