پروین شاکر کا عصرِ حاضر کی شاعرات میں بلند مقام ہے‘ پروفیسر حسین فاطمہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) عظیم شاعرہ پروین شاکر کی 73ویں سالگرہ کے موقع پر فروغِ علم و ادب فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے خواتین کراچی، معروف علمی و ادبی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر حسین فاطمہ، سینئر نائب صدر اور سابق پرنسپل مہران گرلز ڈگری کالج فیڈرل بی ایریا کراچی و ماہرِ تعلیم پروفیسر اسماء ناز عباسی اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری و معروف قلمکار صنوبر فیصل نے اپنے مشترکہ بیان میں اردو ادب کی ممتاز شاعرہ کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر حسین فاطمہ کا کہنا ہے کہ پروین شاکر عصرِ حاضر کی شاعرات میں سب سے بلند مقام پر فائز ہیں۔ ان کی شاعری میں جمالیاتی احساس، لطیف جذبات اور نسائی تہذیب کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو انہیں شاعرہ عصر بناتا ہے۔ پروفیسر اسماء ناز عباسی نے کہا کہ پروین شاکر نے اپنی منفرد شاعری کے ذریعے نسائی احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان کے مطابق پروین شاکر نے عورت کی داخلی دنیا، جذباتی کیفیات، محبت اور تنہائی کے لطیف پہلوؤں کو جس خوبصورتی سے پیش کیا، وہ اردو شاعری میں نئی جہت کا اضافہ ہے۔صنوبر فیصل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروین شاکر اردو ادب کی وہ منفرد و ممتاز شاعرہ ہیں جن کا آج بھی کوئی نعم البدل نہیں ان کی شاعری میں جمالیاتی احساس، لطیف جذبات اور نسائی تہذیب کا ایسا امتزاج ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروین شاکر کی شاعری ایک ایسی کائنات رکھتی ہے جس میں احساس، نرمی اور لفظوں کا ایسا جادو ہے جو قاری کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔مشترکہ بیان میں فروغِ علم و ادب فاؤنڈیشن کی عہدیداران نے کہا کہ اردو ادب کی یہ نازک حسیت کی ترجمان شاعرہ آج بھی دنیا بھر میں بے حد احترام اور عقیدت کے ساتھ یاد کی جاتی ہے۔ پروین شاکر نے اپنے پہلے شعری مجموعے ”خوشبو” سے اردو کے ادبی منظرنامے میں ایک نئی تازگی پیدا کی، جب کہ ’’صد برگ‘‘، ’’خودکلامی‘‘، ’’انکار‘‘ اور ’’ماہِ تمام‘‘ جیسی تصانیف نے انہیں جدید اردو شاعری میں ایک مستند اور نمایاں مقام عطا کیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ پروین شاکر
پڑھیں:
کینیڈا میں خالصتان ریفرنڈم: 53 ہزار سکھوں نے ووٹ دے کر بھارتی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی
کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں خالصتان کے حوالے سے تاریخی ریفرنڈم منعقد ہوا، جس میں 53 ہزار سے زائد سکھ شہریوں نے حصہ لیا اور بھارتی پالیسیوں کے خلاف اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
ریفرنڈم کے دوران سکھ برادری نے بھارتی حکومت کے مبینہ جابرانہ اقدامات اور مودی سرکار کی پالیسیوں پر بھرپور احتجاج کیا۔ علیحدگی پسند تنظیم “سکھ فار جسٹس” (SFJ) کے مطابق شدید سردی کے باوجود ہزاروں سکھوں نے طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کے بعد ووٹ ڈالا۔
تنظیم کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں نے اس ریفرنڈم کو ’’ہندوتوا کے دہشت گرد مودی کی گولی اور بم کا جواب‘‘ قرار دیا اور کہا کہ مودی حکومت کی سیاسی ناکامی صرف بیلٹ اور عالمی احتساب کے ذریعے ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1984 کی سکھ نسل کشی کے بعد بھارتی حکومت پنجاب میں سکھ برادری پر معاشی دباؤ اور استحصال کے ذریعے ظلم کر رہی ہے، اور کینیڈین ایجنسیز نے پہلے ہی ان نیٹ ورکس کی نشاندہی کی ہے جو مبینہ طور پر سکھوں کے قتل اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔
سکھ فار جسٹس کے مطابق، بھارتی ریاستی ظلم اور سیاسی دباؤ کے باوجود خالصتان تحریک عالمی سطح پر تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے، اور بڑی تعداد میں سکھ اب آزاد ملک کے قیام کے مطالبے کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔