کراچی میں چینی سپلائی رُکنے سے بحران بڑھ گیا؛ قیمت بلند ترین سطح پر
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ملک بھر میں چینی کی قیمتوں کا بحران ایک بار پھر شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے جب کہ کراچی اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل ہوچکا ہے۔
سندھ اور پنجاب میں کرشنگ سیزن باقاعدہ شروع ہوچکا ہے اور درآمد شدہ چینی کے بڑے ذخائر بھی ملک میں موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود چینی کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ رہی ہیں، جس سے عوام میں شدید بے چینی اور تشویش پائی جارہی ہے۔
ہول سیل مارکیٹ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ سپلائی میں اچانک کمی اور ملوں کی جانب سے لامتناہی تاخیر نے قیمتوں کو غیر معمولی رفتار سے اوپر دھکیل دیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم کا کہنا ہے کہ کراچی کی تھوک مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت پہلی بار 202 روپے کی حد عبور کر گئی ہے، جو ماضی میں کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 روز سے سندھ کی شوگر ملوں نے کراچی کی تھوک مارکیٹوں میں سپلائی مکمل طور پر روک رکھی ہے، جس نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ مارکیٹ کی اندرونی سرگرمیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ قیمتوں کو اوپر رکھنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت چینی کی ترسیل کو محدود کیا جارہا ہے، جس کے باعث نہ صرف کراچی بلکہ دیگر صوبوں میں بھی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں اس وقت چینی کی تھوک قیمت 175 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے جب کہ خیبرپختونخوا میں یہی قیمت 200 روپے کی سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
رؤف ابراہیم کے مطابق کراچی میں صورتِ حال سب سے زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ خوردہ سطح پر چینی 210 سے 215 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی ہے اور عوام آنے والے دنوں میں مزید اضافے کے خدشات سے پریشان ہیں۔ ہول سیل سپلائی بند ہونے کے باعث قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان فوری طور پر نظر نہیں آ رہا۔
چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ گنے کے کاشتکاروں سے 350 سے 400 روپے من کی قیمت پر گنا خریدا گیا ہے، جس سے فی کلو گنے کی لاگت تقریباً 10 روپے بنتی ہے۔ اس حساب سے چینی کی موجودہ قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کسی صورت بھی پیداوار یا لاگت کے تناظر میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی قیمت میں اضافہ پیداوار نہیں بلکہ مارکیٹ میں مصنوعی بحران اور شوگر ملوں کی جانب سے مبینہ طور پر تیار کی گئی کارٹیلائزیشن کا نتیجہ ہے۔
رؤف ابراہیم نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں شوگر مافیا کے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کی ہے، تاہم حکومتی سطح پر اس معاملے پر مؤثر کارروائی سامنے نہیں آئی۔ آئی ایم ایف کی نشاندہی غلط نہیں اور حکومت کو عوامی مفاد میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چینی جیسے روزمرہ استعمال کی بنیادی ضرورت کو مصنوعی مہنگائی سے بچایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو بحران مزید گہرا ہوگا اور عام شہری کے لیے چینی خریدنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے چینی کی ہول سیل فی کلو کی گئی
پڑھیں:
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار قرار دے دیا
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ ایف بی آر پورٹلز کی بندش اور حکومتی ڈیلرز کی وجہ سے ہوا، دیگروجوہات میں چینی کی بین الصوبائی ترسیل پر پابندیاں شامل ہے۔
جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ انڈسٹری عرصے سے یہ کہہ رہی تھی کہ پورٹلز بندش سے چینی کی سپلائی کم ہو گی، حکومت کو بندش سے قیمتیں بڑھنے کے حوالے سے بھی خبردار کیاگیا، حکومت نے ملوں پر دباؤ ڈالے رکھا تا کہ غیرضروری درآمدی چینی کو فروخت کیا جائے۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ عوام کی اکثریت نے درآمدی چینی کو پسند نہیں کیا، سندھ میں پورٹلز بند رکھے گئے تاکہ پورٹ پر درآمدی چینی کو پہلے فروخت کیا جا سکے، جب سے حکومت یہ پابندیاں لگا رہی تھی تب سے چینی کی سپلائی کم ہونے لگ گئی۔
ان اقدامات سے چینی کی قیمتیں بڑھیں جس کی ذمہ دار شوگر انڈسٹری نہ ہے، پنجاب میں ضلعی انتظامیہ نے ملوں کو مجبور کیا کہ حکومتی نامزد کردہ ڈٰیلرز چینی فروخت کریں، جنہوں نے مارکیٹ میں اپنے فائدے کے لیے چینی مہنگی فروخت کی۔
بیان میں کہا گیا کہ نئی چینی مارکیٹ میں آنے سے قیمتیں معمول پر آنے کا امکان ہے، حکومت سے مطالبہ ہے کہ چینی کی بین الصوبائی ترسیل پرغیرآئینی و غیرقانونی پابندی اُٹھائی جائے۔