Islam Times:
2025-11-24@20:29:09 GMT

غزہ منصوبہ، امریکی قرارداد کا آپریشن

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

غزہ منصوبہ، امریکی قرارداد کا آپریشن

اسلام ٹائمز: امریکہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود افغانستان سے نکلنا پڑا، عراق سے بھی نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امید یہی ہے کہ غزہ میں بھی اسے دس برس بعد ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ میں نے جن دو مثالوں کا تذکرہ کیا، یہ دونوں اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ہیں، جبکہ فلسطین ایک مبصر رکن ہے۔ حالات ایک جیسے نہیں ہیں، تاہم اصل فیصلہ کن قوت عوام ہوتے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں حتمی فیصلہ بہرحال عوام نے ہی کیا، فلسطین میں بھی عوام ہی یہ فیصلہ کریں گے۔ میرے خیال میں فلسطین کا دو ریاستی حل مزید دس سال آگے چلا گیا ہے، جب امن منصوبہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا، اس وقت فلسطینی تو ہوں گے، مگر ریاست نہیں ہوگی۔ امید پر دنیا قائم ہے، فلسطینیوں اور بالخصوص اہل غزہ کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے، خدا بہتر جانتا ہے کہ کب فرعون کے محل سے موسیٰ کو نکالے، جو فرعون کی فرعونیت کو دریائے نیل میں غرق کر دے۔ تحریر: سید اسد عباس

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 17 نومبر2025ء کو غزہ کے لیے صدر ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کی، جس کی پندرہ میں سے تیرہ ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، نے حمایت کی۔ شاید دوسرا مسلم ملک الجیریا تھا، باقی اراکین مغرب اور افریقی ممالک کے تھے۔ قرارداد S/RES/2803 (2025) سلامتی کونسل کی بائنڈنگ قرارداد ہے، جس پر رکن ممالک کے لیے عمل کرنا لازم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں دو اداروں سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے تحت منظور ہوتی ہیں۔ سلامتی کونسل کے تحت منظور ہونے والی قراردادیں بالخصوص باب ہفتم کے تحت منظور ہونے والی قراردادیں زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ اس کی مثالیں عراق کے خلاف خلیج جنگ اور نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قراردادیں ہیں۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کی دوسری قسم نان بائنڈنگ قراردادیں ہیں۔ یہ قراردادیں تنازعات کے پرامن حل، مذاکرات، ثالثی وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں اور قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، مگر ان کا سیاسی اثر ہوتا ہے۔ یوم کپور کی جنگ بندی کی قرارداد، عرب اسرائیل جنگ کے بعد "زمین کے عوض امن" کا اصول یہ قراردادیں اگرچہ بائنڈگ نہیں تھیں، تاہم عالمی سفارت کاری کی بنیاد بنیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تیسری قسم امن فورسز یا امن مشن کے قیام سے متعلق ہے، جیسے کوسوو میں امن فورس کی تعیناتی، دنیا بھر میں امن مشنز کی تعیناتی۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی چوتھی قسم کسی خطے میں براہ راست بین الاقوامی نگرانی یا عبوری نظام کے قیام سے متعلق ہوتی ہیں۔ مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں حکومت کا قیام، عراق میں امریکی قبضے کے بعد کا عبوری انتظام اسی قسم کی قرارداد کی مثالیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی بھی مختلف اقسام ہیں، اعلامیہ یا اصولی قرارداد، جیسے عالمی انسانی حقوق کی بنیادی دستاویز، بجٹ یا انتظامی قرارداد، سیاسی قرارداد، جیسے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینا، روس کے یوکرائن پر حملے کی مذمت۔ فلسطین پر جنرل اسمبلی کی اکثر قراردادیں غیر بائنڈنگ ہیں، یعنی ان پر عملدرآمد قانونی طور پر لازم نہیں ہے۔ فلسطین کے معاملے میں امریکا کی وجہ سے تقریباً کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں ہوسکی، جو Chapter VII کے تحت ہو، یعنی قانونی طور پر لازمی طور پر نافذ العمل ہو۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اگرچہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں، تاہم یہ قراردادیں باب ششم کے تحت منظور ہوئی ہیں، جس کے سبب ان کی حیثیت سیاسی ہے، یہ بائنڈنگ نہیں ہیں۔

سلامتی کونسل میں باب ہفتم کے تحت فلسطین پر امریکا کی جانب سے منظور کروائی جانے والی پہلی اور اکلوتی قرارداد S/RES/2803 (2025) ہی ہے، جو ٹرمپ کے امن منصوبے کے نفاذ کو لازم قرار دیتی ہے۔ سلامتی کونسل کے کسی مستقل رکن نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، چین اور روس نے بھی قرارداد پر اعتراض کیا اور ووٹنگ میں شرکت نہیں کی، جس کے سبب یہ قرارداد اقوام متحدہ میں منظور ہوگئی۔ پاکستان کے پاس بھرپور موقع تھا کہ وہ اس قرارداد کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتا۔ پاکستانی مندوب کے مطابق انھوں نے قرارداد پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے، تاہم اس کے باوجود قرارداد کو اکثریت رائے سے منظور بھی کروایا۔ سلامتی کونسل کی مذکورہ غزہ امن منصوبہ قرارداد جو باب ہفتم کے تحت منظور ہوئی ہے اور عملی نفاذ کو تمام رکن ممالک پر لازم قرار دیتی ہے، میں (International Stabilization Force – ISF) کو غزہ میں تعیناتی کے لیے قانونی اجازت دی گئی ہے۔

یعنی، یہ فورس "منظور شدہ" ہے اور اسے سلامتی کونسل نے اپنا مینڈیٹ دیا ہے، تاکہ وہ مخصوص اہداف (جیسے سکیورٹی، غیر مسلح کاری، شہری تحفظ) کے لیے کام کرے۔ یہ قرارداد غزہ کے لیے ایک عبوری انتظامیہ، یعنی Board of Peace کو تسلیم کرتی ہے اور اسے قانونی حیثیت دیتی ہے۔ یہ بورڈ نہ صرف نگرانی کرے گا بلکہ اسے انتظامی اور سکیورٹی ڈھانچوں کے تحت کام کرنے کا اختیار ہوگا۔ قرارداد میں یہ طے کیا گیا ہے کہ یہ انتظامی اور سکیورٹی ڈھانچے 31 دسمبر 2027ء تک مؤثر رہیں گے، مگر سلامتی کونسل آئندہ کارروائی (فالو اپ) کے لیے ایک جائزہ لے سکتی ہے۔ بورڈ آف پیس کو ہر چھ ماہ بعد کونسل کو اپنی پیش رفت کی تحریری رپورٹ پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یہ قرارداد انسانی امداد کی بحالی پر زور دیتی ہے اور بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کو امداد فراہم کرنے کے لیے قانونی اور اخلاقی مینڈیٹ فراہم کرتی ہے، تاکہ امداد فوجی اور مسلح گروپوں کی جانب نہ جائے۔

چینی مندوب ایلچی فوکونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ منصوبے میں دو ریاستی حل، غزہ کی فلسطینی حکمرانی اور بین الاقوامی فورس کے ڈھانچے سے متعلق تشویشناک ابہام موجود ہے۔ روسی سفیر نے منصوبے کو اسرائیل کی جاری کارروائیوں کے لیے "پردہ" قرار دیا۔ حماس نے بھی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے غزہ پر ایسی بین الاقوامی سرپرستی مسلط کی جا رہی ہے، جسے فلسطینی عوام قبول نہیں کریں گے۔ حماس کے مطابق بین الاقوامی فورس کو دیئے گئے اختیارات، خصوصاً مزاحمت کے غیر مسلح کرنے کا ہدف، اس فورس کو جانبدار بنا دے گا، جو بالآخر اسرائیلی مفادات کو تقویت دے گا۔ مزید برآں، حماس کا مؤقف ہے کہ وہ صرف ایک مکمل خود مختار فلسطینی حکومت کے قیام کی صورت میں ہی اپنے ہتھیار اس کے سپرد کرے گی، جبکہ قرارداد اس شرط کو نظرانداز کرتی ہے۔

پاکستان نے بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح لائحہ عمل، فلسطینی اتھارٹی کا مرکزی کردار اور بین الاقوامی فورس و بورڈ آف پیس کے اختیارات و ساخت کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے، مگر چین اور روس کی مانند ووٹنگ سے باہر نہیں رہا بلکہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد اسرائیلی زیادتیوں کی کھلی مذمت سے خالی ہے۔ شنید ہے کہ اردن، قطر، امارات اور سعودی عرب استحکام فورس کا حصہ بننے سے انکار کرچکے ہیں، جبکہ مصر، انڈونیشیا، آذربائیجان، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان اس فورس کا حصہ بننے کی پیشکش کرچکے ہیں، تاہم ممکن ہے کہ عوامی دباؤ کے تحت یہ ممالک اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اگر عراق پر امریکی قبضے، افغانستان کے خلاف جنگ کی باب ہفتم کے تحت منظور شدہ قراردادوں اور آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ شائد ایسی قراردادوں سے اپنے کچھ مفادات تو حاصل کرسکتا ہے، تاہم یہ قراردادیں کسی بھی مسئلہ کا مستقل حل نہیں ہیں۔

امریکہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود افغانستان سے نکلنا پڑا، عراق سے بھی نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امید یہی ہے کہ غزہ میں بھی اسے دس برس بعد ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ میں نے جن دو مثالوں کا تذکرہ کیا، یہ دونوں اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ہیں، جبکہ فلسطین ایک مبصر رکن ہے۔ حالات ایک جیسے نہیں ہیں، تاہم اصل فیصلہ کن قوت عوام ہوتے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں حتمی فیصلہ بہرحال عوام نے ہی کیا، فلسطین میں بھی عوام ہی یہ فیصلہ کریں گے۔ میرے خیال میں فلسطین کا دو ریاستی حل مزید دس سال آگے چلا گیا ہے، جب امن منصوبہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا، اس وقت فلسطینی تو ہوں گے، مگر ریاست نہیں ہوگی۔ امید پر دنیا قائم ہے، فلسطینیوں اور بالخصوص اہل غزہ کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے، خدا بہتر جانتا ہے کہ کب فرعون کے محل سے موسیٰ کو نکالے، جو فرعون کی فرعونیت کو دریائے نیل میں غرق کر دے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سلامتی کونسل کی قراردادوں کی قراردادوں کی اقوام متحدہ کی کی قراردادیں یہ قراردادیں بین الاقوامی کے تحت منظور یہ قرارداد ہوتی ہیں نہیں ہیں کے قیام پر لازم میں بھی دیتی ہے ہے اور کے لیے کا حصہ

پڑھیں:

گلگت بلتستان اسمبلی نے 24 منٹ میں 13 بل منظور کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا

پیر کے روز اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے آٹھ گھنٹے قبل پونے 4 بجے جب اسمبلی کی کارروائی کا آغاز ہوا تو ایجنڈے میں 13 بل شامل تھے، اپوزیشن نے یہ کہتے ہوئے احتجاجا ایوان سے واک آؤٹ کر دیا کہ ایک دن میں تیرہ بل بغیر بحث کے بھی منظوری ممکن نہیں ہے اس لیے ہم اس غیر قانونی عمل کا حصہ نہیں بنتے۔  گلگت بلتستان اسمبلی نے 24 منٹ میں 13 بل منظور کر کے ریکارڈ قائم کر دیا۔ پیر کے روز اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے آٹھ گھنٹے قبل پونے 4 بجے جب اسمبلی کی کارروائی کا آغاز ہوا تو ایجنڈے میں 13 بل شامل تھے، اپوزیشن نے یہ کہتے ہوئے احتجاجا ایوان سے واک آؤٹ کر دیا کہ ایک دن میں تیرہ بل بغیر بحث کے بھی منظوری ممکن نہیں ہے اس لیے ہم اس غیر قانونی عمل کا حصہ نہیں بنتے، اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد وزیر قانون و پارلیمانی امور غلام محمد نے چار بجے پہلا بل گلگت بلتستان سنٹر آف ایکسلینس آن کاؤنٹرنگ ایکسٹریزم بل 2025ء کا صرف نام پیش کیا، غلام محمد نے بل پر کوئی بریفنگ دی نہ بل کا متن پڑھا۔ جس کے بعد سپیکر نے بل کی منظوری کیلئے رائے شماری کرائی اور محض دو منٹ میں ایک بل متفقہ طور پر منظور ہونے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد غلام محمد بل کا نام ایوان میں پیش کرتے رہے اور دو منٹ میں بل منظور ہوتا رہا۔ دو بلوں کی منظوری میں محض دو منٹ لگے، اس طرح 24 منٹ میں 13 بل ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان اسمبلی نے 24 منٹ میں 13 بل منظور کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا
  • یوکرینی سرحدوں کی جبری تبدیلی منظور نہیں‘یورپ کا ٹرمپ کو جواب
  • غزہ امن منصوبہ: کیا فلسطین کی آزاد ریاست وجود میں آ پائے گی؟
  • جی 20 ممالک نے امریکی شمولیت کے بغیر اعلامیہ منظور کر لیا
  • سوڈان میں جنگ بندی کے لیے عالمی منصوبہ تیار ہے‘ امریکا
  • فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • عاصم افتخاراحمد کا جنرل اسمبلی مباحثے میں عالمی ادارے میں طاقت کےعدم توازن پرگہری تشویش کااظہار
  • اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ، امریکہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے، حافظ نعیم
  • غزہ کے حوالے سے امریکی قرارداد کی حمایت شرمناک ہے، تنظیم اسلامی