ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے ایک پاکستانی فلم بھی منتخب ہوئی ہے جس کے چرچے زبان زد عام ہونے لگے ہیں۔

عالمی فیسٹیول میں منتخب ہونے والی واحد پاکستانی فیچر فلم ’گھوسٹ اسکول‘ کی ہدایتکارہ، مصنفہ اور پروڈیوسر سیماب گل ہیں۔

اس فلم نے عالمی سطح پر پاکستان میں بچیوں کی تعلیم اور گھوسٹ اسکولز جیسے سنگین سماجی مسئلے کو اجاگر کر کے توجہ حاصل کرلی ہے۔

’گھوسٹ اسکول‘ کی کہانی کراچی کے مضافات میں واقع ایک ماہی گیروں کی بستی کے گرد گھومتی ہے جس کا مرکزی کردار ایک کم عمر بچی رابعہ ہے۔

یہ کہانی دراصل ایک بدعنوان نظام کی علامت ہے جس کے ذریعے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو مختلف حیلوں بہانوں اور خوف دلا کر تعلیم سے روکا جاتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ رابعہ کا اسکول اچانک بند کر دیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ اسکول میں جنّات کا بسیرا ہے۔

معصوم رابعہ اس غیر منطقی جواز کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اور سوالات اٹھانے لگتی ہے یہاں تک کہ وہ خود سچ جاننے کے سفر پر نکل پڑتی ہے۔

ننھی رابعہ جیسے جیسے جنات کے بسیرے کے سچ ڈھونڈنے کے لیے آگے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے بستی کے بااثر افراد کے مفادات اور سازش بے نقاب ہوتی جاتی ہے۔

فلم میں زیادہ تر غیر پیشہ ور اداکاروں کو شامل کیا گیا ہے جو ایرانی سینما کے اسلوب کی یاد دلاتا ہے۔

جنّات کی کہانی، فلم میں خوف پیدا کرنے کے بجائے حقیقت اور افسانے کے درمیان ایک علامتی فضا قائم کرتی ہے، جو ناظر کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

اس حوالے سے سیماب گل کا کہنا تھا کہ ’گھوسٹ اسکول‘ کو ابتدا میں ایک ڈاکومنٹری کے طور پر شروع کیا تھا مگر کہانی کی وسعت کے باعث اسے فیچر فلم کی شکل دے دی گئی۔

یاد رہے کہ فلم ’گھوسٹ اسکول‘ کا ورلڈ پریمیئر رواں برس ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوا تھا جبکہ پاکستان میں آئندہ موسمِ گرما میں سینما گھروں کی زینت بننے کا امکان ہے۔

 

 

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل فیسٹیول میں

پڑھیں:

قدیم رومی افسران اور بھارتی بندروں کے درمیان دلچسپ تعلق کا انکشاف!

ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مصر میں رہنے والے رومی فوجی افسران دولت کی نمائش کے لیے بھارت سے منگائے پالتو بندر رکھا کرتے تھے۔

مصر کے مغربی ساحل میں واقع قدیم بندرگاہ بیرینیک میں موجود قبرستان پہلی بار 2011 میں دریافت ہوا تھا اور تب سے اب تک یہاں محققین تقریباً 800 قبریں کھود چکے ہیں۔

سائنس دانوں نے بتایا کہ ان کھدائیوں میں سب سے دلچسپ موقع وہ تھا جب مصری بندرگاہ کے شہری علاقے کے باہر موجود ایک جگہ سے 35 بندروں کی باقیات نکلیں تھیں۔

اب محققین نے ان بندروں کی باقیات سے متعلق بتایا ہے کہ ان کا تعلق پہلی دوسری صدی عیسوی سے ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اعلیٰ عہدے پر فائز رومی ملٹری افسران اس علاقے میں رہا کرتے تھے۔

بندروں کی ہڈیوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ تر بندروں کا تعلق بھارت سے تھا، جو کہ بھارت سے رومی مصر تک زندہ جانوروں کی تجارت کا پہلا طبعی ثبوت ہے۔

جرنل رومن آرکیالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے لکھا کہ بیرینیک میں دفن بندروں کی یہ نسل جانوروں ایک منظم تجارت کا پہلا واضح ثبوت ہے۔

سائنس دانوں نے بتایا کہ کسی کے پاس بندر ہونا ممکنہ طور پر معاشرے میں شناخت کا عنصر رکھتا تھا یعنی یہ وہ علامت تھی جو کسی کو مقامی معاشرے میں بطور اشرافیہ واضح کرتی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آبادمیں انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کی منصوبہ بندی مکمل
  • شمالی کوریائی رہنما کی یوکرین میں لڑنے والے فوجیوں سے ملاقات
  • ثقافتی فیسٹیول اور سندھ کلچر ڈے
  • قدیم رومی افسران اور بھارتی بندروں کے درمیان دلچسپ تعلق کا انکشاف!
  • انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں طالبہ کو قتل کرنے والے ملزم پر فرد جرم عائد
  • پاکستانی خواتین انٹرپرینیورز جدت اور مسائل کے حل میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، اویس سعید
  • سعودی عرب؛ چلبلی اداکارہ عالیہ بھٹ کو نئے ایوارڈ سے نواز دیا گیا
  • دنیا کا واحد ملک جہاں خواتین مردوں سے زیادہ کماتی ہیں، کس خطے میں واقع ہے؟
  • کبریٰ خان کی نئی وائرل ڈانس ویڈیو پر صارفین کے دلچسپ تبصرے